“Discover the magic of Zehra Nigah Urdu poetry—a blend of timeless wisdom and eloquence. Immerse yourself in the beauty of his verses, where passion and philosophy unite, creating a poetic journey that transcends boundaries.”
اس رہ گزر میں اپنا قدم بھی جدا ملا
اتنی صعوبتوں کا ہمیں یہ صلہ ملا
اک وسعت خیال کہ لفظوں میں گھر گئی
لہجہ کبھی جو ہم کو کرم آشنا ملا
تاروں کو گردشیں ملیں ذروں کو تابشیں
اے رہ نورد راہ جنوں تجھ کو کیا ملا
ہم سے بڑھی مسافت دشت وفا کہ ہم
خود ہی بھٹک گئے جو کبھی راستہ ملا
زہرا نگاہ
دیر تک روشنی رہی کل رات
میں نے اوڑھی تھی چاندنی کل رات
ایک مدت کے بعد دھند چھٹی
دل نے اپنی کہی سنی کل رات
انگلیاں آسمان چھوتی تھیں
ہاں مری دسترس میں تھی کل رات
اٹھتا جاتا تھا پردۂ نسیاں
ایک اک بات یاد تھی کل رات
طاق دل پہ تھی گھنگھروؤں کی صدا
اک جھڑی سی لگی رہی کل رات
جگنوؤں کے سے لمحے اڑتے تھے
میری مٹھی میں آ گئی کل رات
زہرا نگاہ
رات گہری تھی پھر بھی سویرا سا تھا
ایک چہرہ کہ آنکھوں میں ٹھہرا سا تھا
بے چراغی سے تیری مرے شہر دل
وادیٔ شعر میں کچھ اجالا سا تھا
میرے چہرے کا سورج اسے یاد ہے
بھولتا ہے پلک پر ستارہ سا تھا
بات کیجے تو کھلتے تھے جوہر بہت
دیکھنے میں تو وہ شخص سادہ سا تھا
صلح جس سے رہی میری تا زندگی
اس کا سارے زمانے سے جھگڑا سا تھا
زہرا نگاہ
یہ سچ ہے یہاں شور زیادہ نہیں ہوتا
گھر بار کے بازار میں پر کیا نہیں ہوتا
جبر دل بے مہر کا چرچا نہیں ہوتا
تاریکئ شب میں کوئی چہرہ نہیں ہوتا
ہر جذبۂ معصوم کی لگ جاتی ہے بولی
کہنے کو خریدار پرایا نہیں ہوتا
عورت کے خدا دو ہیں حقیقی و مجازی
پر اس کے لیے کوئی بھی اچھا نہیں ہوتا
شب بھر کا ترا جاگنا اچھا نہیں زہراؔ
پھر دن کا کوئی کام بھی پورا نہیں ہوتا
زہرا نگاہ
رات عجب آسیب زدہ سا موسم تھا
اپنا ہونا اور نہ ہونا مبہم تھا
ایک گل تنہائی تھا جو ہمدم تھا
خار و غبار کا سرمایہ بھی کم کم تھا
آنکھ سے کٹ کٹ جاتے تھے سارے منظر
رات سے رنگ دیدۂ حیراں برہم تھا
جس عالم کو ہو کا عالم کہتے ہیں
وہ عالم تھا اور وہ عالم پیہم تھا
خار خمیدہ سر تھے بگولے بے آواز
صحرا میں بھی آج کسی کا ماتم تھا
روشنیاں اطراف میں زہراؔ روشن تھیں
آئینے میں عکس ہی تیرا مدھم تھا
زہرا نگاہ
سفر خود رفتگی کا بھی عجب انداز تھا
کہیں پر راہ بھولے تھے نہ رک کر دم لیا تھا
زمیں پر گر رہے تھے چاند تارے جلدی جلدی
اندھیرا گھر کی دیواروں سے اونچا ہو رہا تھا
چلے چلتے تھے رہرو ایک آواز اخی پر
جنوں تھا یا فسوں تھا کچھ تو تھا جو ہو رہا تھا
میں اس دن تیری آمد کا نظارہ سوچتی تھی
وہ دن جب تیرے جانے کے لیے رکنا پڑا تھا
اسی حسن تعلق پر ورق لکھتے گئے لاکھ
کرن سے روئے گل تک ایک پل کا رابطہ تھا
بہت دن بعد زہراؔ تو نے کچھ غزلیں تو لکھیں
نہ لکھنے کا کسی سے کیا کوئی وعدہ کیا تھا
زہرا نگاہ
سمجھوتہ
ملائم گرم سمجھوتے کی چادر !
یہ چادر میں نے برسوں میں بُنی
کہیں بھی سچ کے گُل بُوٹے نہیں ہیں
کِسی بھی جُھوٹ کا ٹانکا نہیں ہے
اِسی سے میں بھی تن ڈھک لُوں گی اپنا
اِسی سے تم بھی آسوُدہ رہو گے
نہ خوش ہو گے نہ پژمردہ رہو گے
اِسی کو تان کر بن جائے گا گھر
بِچھا لیں گے تو کِھل اُٹھے گا آنگن !
اُٹھا لیں گے تو، گِر جائے گی چلمن
زہرا نگاہ
ہر خار عنایت تھا ہر اک سنگ صلہ تھا
اس راہ میں ہر زخم ہمیں راہنما تھا
کیوں گھر کے اب آئے ہیں یہ بادل یہ گھٹائیں
ہم نے تو تجھے دیر ہوئی یاد کیا تھا
اے شیشہ گرو کچھ تو کرو آئنہ خانہ
رنگوں سے خفا رخ سے جدا یوں نہ ہوا تھا
ان آنکھوں سے کیوں صبح کا سورج ہے گریزاں
جن آنکھوں نے راتوں میں ستاروں کو چنا تھا
زہرا نگاہ
نقش کی طرح ابھرنا بھی تمہی سے سیکھا
رفتہ رفتہ نظر آنا بھی تمہی سے سیکھا
تم سے حاصل ہوا اک گہرے سمندر کا سکوت
اور ہر موج سے لڑنا بھی تمہی سے سیکھا
اچھے شعروں کی پرکھ تم نے ہی سکھلائی مجھے
اپنے انداز سے کہنا بھی تمہی سے سیکھا
تم نے سمجھائے مری سوچ کو آداب ادب
لفظ و معنی سے الجھنا بھی تمہی سے سیکھا
رشتۂ ناز کو جانا بھی تو تم سے جانا
جامۂ فخر پہننا بھی تمہی سے سیکھا
چھوٹی سی بات پہ خوش ہونا مجھے آتا تھا
پر بڑی بات پہ چپ رہنا تمہی سے سیکھا
زہرا نگاہ
کہاں گئے مرے دلدار و غمگسار سے لوگ
وہ دلبرانِ زمیں، وہ فلک شعار سے لوگ
وہ موسموں کی صفت سب کو باعثِ تسکیں
وہ مہر و مہہ کی طرح سب پہ آشکار سے لوگ
ہر آفتاب سے کرنیں سمیٹ لیتے ہیں
ہمارے شہر پہ چھائے ہوئے غبار سے لوگ
ہم ایسے سادہ دلوں کی کیں پہ جا ہی نہیں
چہار سمت سے اُمنڈے ہیں ہوشیار سے لوگ
لہو لہو ہوں جب آنکھیں تو کیسا وعدہِ دید
چلے گئے ہیں، سرِ شام کوئے یار سے لوگ
نسیم صبح کے جھونکے ہمیں بھی چھو کے گزر
ہمیں بھی یاد ہیں کچھ موسمِ بہار سے لوگ
زہرا نگار🌹
جاں دینا بس ایک زیاں کا سودا تھا
راہ طلب میں کس کو یہ اندازہ تھا
آنکھوں میں دیدار کا کاجل ڈالا تھا
آنچل پہ امید کا تارہ ٹانکا تھا
ہاتھوں کی بانکیں چھن چھن چھن ہنستی تھیں
پیروں کی جھانجھن کو غصہ آتا تھا
ہوا سکھی تھی میری، رت ہمجولی تھی
ہم تینوں نے مل کر کیا کیا سوچا تھا
ہر کونے میں اپنے آپ سے باتیں کیں
ہر پہچل پر آئینے میں دیکھا تھا
شام ڈھلے آہٹ کی کرنیں پھوٹی تھیں
سورج ڈوب کے میرے گھر میں نکلا تھا
زہرا نگاہ
اپنا ہر انداز، آنکھوں کو تر و تازہ لگا۔
کتنے دن کے بعد، مجھ کو آٸینہ اچھا لگا۔
میں تو اپنے آپ کو اُس دن بہت اچھی لگی
وہ جو تھک کر دیر سے آیا، اُسے کیسا لگا؟
شاعرہ : زہرہ نگاہؔ
رشتے سے محافظ کا خطرہ جو نکل جاتا
منزل پہ بھی آ جاتے نقشہ بھی بدل جاتا
اس جھوٹ کی دلدل سے باہر بھی نکل آتے
دنیا میں بھی سر اٹھتا اور گھر بھی سنبھل جاتا
ہنستے ہوئے بوڑھوں کو قصے کئی یاد آتے
روتے ہوئے بچوں کا رونا بھی بہل جاتا
کیوں اپنے پہاڑوں کے سینوں کو جلاتے ہم
خطرہ تو محبت کے اک پھول سے ٹل جاتا
اس شہر کو راس آئی ہم جیسوں کی گم نامی
ہم نام بتاتے تو یہ شہر بھی جل جاتا
وہ ساتھ نہ دیتا تو وہ داد نہ دیتا تو
یہ لکھنے لکھانے کا جو بھی ہے خلل جاتا
زہرا نگاہ