نظم
شاعر: شکیل بدایونی
انتخاب: خاک نشیں

اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
اس کے سائے میں سدا پیار کے چرچے ہوں گے
ختم جو ہو نہ سکے گی وہ کہانی دی ہے
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
تاج وہ شمع ہے الفت کے صنم خانے کی
جس کے پروانوں میں مفلس بھی ہیں زردار بھی ہیں
سنگ مرمر میں سمائے ہوئے خوابوں کی قسم
مرحلے پیار کے آساں بھی ہیں دشوار بھی ہیں
دل کو اک جوش ارادوں کو جوانی دی ہے
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
تاج اک زندہ تصور ہے کسی شاعر کا
اس کا افسانہ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اس کے آغوش میں آ کر یہ گماں ہوتا ہے
زندگی جیسے محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
تاج نے پیار کی موجوں کو روانی دی ہے
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
یہ حسیں رات یہ مہکی ہوئی پر نور فضا
ہو اجازت تو یہ دل عشق کا اظہار کرے
عشق انسان کو انسان بنا دیتا ہے
کس کی ہمت ہے محبت سے جو انکار کرے
آج تقدیر نے یہ رات سہانی دی ہے
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل

 

نظم
شاعر: شکیل بدایونی
انتخاب: خاک نشیں

مرے ساقیا مجھے بھول جا
مرے دل ربا مجھے بھول جا
نہ وہ دل رہا نہ وہ جی رہا
نہ وہ دور عیش و خوشی رہا
نہ وہ ربط و ضبط دلی رہا
نہ وہ اوج تشنہ لبی رہا
نہ وہ ذوق بادہ کشی رہا
میں الم نواز ہوں آج کل
میں شکستہ ساز ہوں آج کل
میں سراپا راز ہوں آج کل
مجھے اب خیال میں بھی نہ ملا
مجھے بھول جا مجھے بھول جا

مجھے زندگی سے عزیز تر
فقط ایک تیری ہی ذات تھی
تری ہر نگاہ مرے لیے
سبب سکون حیات تھی
مری داستان وفا کبھی
تری شرح حسن صفات تھی
مگر اب تو رنگ ہی اور ہے
نہ وہ طرز ہے نہ وہ طور ہے
یہ ستم بھی قابل غور ہے
تجھے اپنے حسن کا واسطہ
مجھے بھول جا مجھے بھول جا
قسم اضطراب حیات کی
مجھے خامشی میں قرار ہے
مرے صحن گلشن عشق میں
نہ خزاں ہے اب نہ بہار ہے
یہی دل تھا رونق انجمن
یہی دل چراغ مزار ہے
مجھے اب سکون دگر نہ دے
مجھے اب نوید سحر نہ دے
مجھے اب فریب نظر نہ دے
نہ ہو وہم عشق میں مبتلا
مجھے بھول جا مجھے بھول جا

 

غزل
شاعر: شکیل بدایونی
انتخاب: خاک نشیں

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا

یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا

کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا

مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری
اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا

جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آ

 

غزل
شاعر: ابرار احمد کاشف
انتخاب: خاک نشیں

شدت احساس تنہائی جگایا مت کرو
مجھ کو اتنے سارے لوگوں سے ملایا مت کرو

تم ہمارے حوصلے کی آخری امید ہو
تم ہمارے زخم پر مرہم لگایا مت کرو

آخری لمحات میں کیا سوچنے لگتے ہو تم
جیت کے نزدیک آ کر ہار جایا مت کرو

ایک آنسو بھی بہت ہے بہ ہر ایصال ثواب
ہم غریبوں کے لئے دریا بہایا مت کرو

لوگ افسانہ بناتے ہیں ذرا سی بات کا
تم ہمارے نام پہ نظریں جھکایا مت کرو

 

ابن انشاء

کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا

ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے
ہم ہنس دئیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ ترا

اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانا ترا

کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے پربت ترے بستی تری صحرا ترا

ہم اور رسم بندگی آشفتگی افتادگی
احسان ہے کیا کیا ترا اے حسن بے پروا ترا

اے بے دریغ و بے اماں ہم نے کبھی کی ہے فغاں
ہم کو تری وحشت سہی ہم کو سہی سودا ترا

دو اشک جانے کس لیے پلکوں پہ آ کر ٹک گئے
الطاف کی بارش تری اکرام کا دریا ترا

ہاں ہاں تری صورت حسیں لیکن تو ایسا بھی نہیں
اک شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا ترا

ہم پر یہ سختی کی نظر ہم ہیں فقیر رہ گزر
رستہ کبھی روکا ترا دامن کبھی تھاما ترا

بے درد سننی ہو تو چل کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق ترا رسوا ترا شاعر ترا انشاؔ ترا

 

ابن انشاء

شام غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کو خبر نہیں ہوتی

ہم نے سب دکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بیکلی اس قدر نہیں ہوتی

نالہ یوں نارسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی

چاند ہے کہکشاں ہے تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی

ایک جاں سوز و نامراد خلش
اس طرف ہے ادھر نہیں ہوتی

دوستو عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی

بے قراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی

ایک دن دیکھنے کو آ جاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی

حسن سب کو خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی

دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی

 

ابن انشاء

دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو

اک بھیک کے دونوں کاسے ہیں اک پیاس کے دونو پیاسے ہیں
ہم کھیتی ہیں تم بادل ہو ہم ندیاں ہیں تم ساگر ہو

یہ دل ہے کہ جلتے سینے میں اک درد کا پھوڑا الہڑ سا
نا گپت رہے نا پھوٹ بہے کوئی مرہم ہو کوئی نشتر ہو

ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں تم چڑھتی رات کے چندرماں
ہم جاتے ہیں تم آتے ہو پھر میل کی صورت کیوں کر ہو

اب حسن کا رتبہ عالی ہے اب حسن سے صحرا خالی ہے
چل بستی میں بنجارہ بن چل نگری میں سوداگر ہو

جس چیز سے تجھ کو نسبت ہے جس چیز کی تجھ کو چاہت ہے
وہ سونا ہے وہ ہیرا ہے وہ ماٹی ہو یا کنکر ہو

اب انشاؔ جی کو بلانا کیا اب پیار کے دیپ جلانا کیا
جب دھوپ اور چھایا ایک سے ہوں جب دن اور رات برابر ہو

وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سر پر ہو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *