ثناء اللہ ظھیر اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں

Here Mentioned Best Urdu Ghazals in Urdu

مجھ کو شاید ابھی واپس وہ بلاۓ ، ہاۓ
میں نے رک رک کے قدم آگے بڑھاۓ ، ہاۓ

جسکے بارے میں خبر صرف مجھے ہوتی تھی
کوئ اس کا بھی حال مجھے سناۓ ، ہاۓ

جو بھی جاتا ہے،پلٹ کرکبھی آتا تو نہیں
جتنی آہیں بھرو کرتے رہو ہاۓ ، ہاۓ

آخری بار کئ بار ملا ہوں اس کو
آ خری بار میرے سامنے وہ آۓ ، ہاۓ

پا برہنہ و کھلےبال چلی آۓ گی
میرے مرنے کی خبر کوئ اڑاۓ ، ہاۓ

جس کی عادت ہو گلے مل کر الوداع کرنے کی
اجنبی بن کر بس وہ ہاتھ ملاے ، ہاۓ

 

 

 

 

ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں
مرا لفظ لفظ ہو آئینہ تجھے آئنے میں اتار لوں

میں تمام دن کا تھکا ہوا تو تمام شب کا جگا ہوا
ذرا ٹھہر جا اسی موڑ پر تیرے ساتھ شام گزار لوں

اگر آسماں کی نمائشوں میں مجھے بھی اذن قیام ہو
تو میں موتیوں کی دکان سے تری بالیاں ترے ہار لوں

کہیں اور بانٹ دے شہرتیں کہیں اور بخش دے عزتیں
مرے پاس ہے مرا آئینہ میں کبھی نہ گرد و غبار لوں

کئی اجنبی تری راہ میں مرے پاس سے یوں گزر گئے
جنہیں دیکھ کر یہ تڑپ ہوئی ترا نام لے کے پکار لوں

بشیر بدر

 

 

 

 

ﻭﮦ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ….
ﺍﮮ ﮨﻤﺪﻡ…..!!!
ﺟﺪﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺍُﺩﺍﺱ ﺭُﺕ ﻣﯿﮟ
ﺧﻔﺎ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﺎ
ﻣﯿﮟ ﻟﻮﭦ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﻗﺮﺑﺘﻮﮞ ﮐﮯ.
ﺣﺴﯿﻦ ﻣﻮﺳﻢ.
ﺳﮯ
ﺩﻝ ﮐﺎ ﺁﻧﮕﻦ ﺳﻨﻮﺍﺭ ﺩﻭﻧﮕﺎ
ﺑﮩﺎﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍُﺗﺎﺭ ﺩﻭﻧﮕﺎ
ﻣﯿﮟ ﻟﮯکے ﺁﺅﮞ ﮔﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ.
ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﻼﺏ ﻣﻮﺳﻢ
ﻭﻓﺎ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﮯ ﺳﯿﻤﺎﺏ ﻟﻤﺤﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺧﺎﻃﺮ
ﻣﮕﺮ…..
ﻭﮦ ﺁﯾﺎ….
ﺗﻮ ﻋﺬﺭﻻﯾﺎ
ﺟﻮﺍﺯ ﻻﯾﺎ
ﻭﺿﺎحتوں ﮐﮯ ﻣﺤﺎذ ﻻﯾﺎ
ﻣﯿﮟ ﺟﻦ ﺩﮐﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﭘﺮ تھا
ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﻻﯾﺎ۔۔!!

 

 

 

 

الفت کی نئی منزل کو چلا تو بانہیں ڈال کے بانہوں میں

دل توڑنے والے دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں

کیا کیا نہ جفائیں دل پہ سہیں پر تم سے کوئی شکوہ نہ کیا

اس جرم کو بھی شامل کر لو میرے معصوم گناہوں میں

جب چاندنی راتوں میں تم نے خود ہم سے کیا اقرار وفا

پھر آج ہیں ہم کیوں بیگانے تیری بے رحم نگاہوں میں

ہم بھی ہیں وہی تم بھی ہو وہی یہ اپنی اپنی قسمت ہے

تم کھیل رہے ہو خوشیوں سے ہم ڈوب گئے ہیں آہوں میں

قتیل شفائی

 

 

 

 

احمد فراز

نظم

مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے
شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو
ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید
اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو

میں نے مانا کہ وہ بیگانۂ پیمان وفا
کھو چکا ہے جو کسی اور کی رعنائی میں
شاید اب لوٹ کے آئے نہ تری محفل میں
اور کوئی دکھ نہ رلائے تجھے تنہائی میں

میں نے مانا کہ شب و روز کے ہنگاموں میں
وقت ہر غم کو بھلا دیتا ہے رفتہ رفتہ
چاہے امید کی شمعیں ہوں کہ یادوں کے چراغ
مستقل بعد بجھا دیتا ہے رفتہ رفتہ

پھر بھی ماضی کا خیال آتا ہے گاہے گاہے
مدتیں درد کی لو کم تو نہیں کر سکتیں
زخم بھر جائیں مگر داغ تو رہ جاتا ہے
دوریوں سے کبھی یادیں تو نہیں مر سکتیں

اور میں جس نے تجھے اپنا مسیحا سمجھا
ایک زخم اور بھی پہلے کی طرح سہ جاؤں
جس پہ پہلے بھی کئی عہد وفا ٹوٹے ہیں
اسی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں

یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر
تیرے پاس آئے زمانے سے کنارا کر لے
تو کہ معصوم بھی ہے زود فراموش بھی ہے
اس کی پیماں شکنی کو بھی گوارا کر لے

 

 

 

 

فھمیدہ ریاض
نظم

اب سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
تم چاند سے ماتھے والے ہو
اور اچھی قسمت رکھتے ہو
بچے کی سو بھولی صورت
اب تک ضد کرنے کی عادت
کچھ کھوئی کھوئی سی باتیں
کچھ سینے میں چبھتی یادیں
اب انہیں بھلا دو سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
سو جاؤ تم شہزادے ہو
اور کتنے ڈھیروں پیارے ہو
اچھا تو کوئی اور بھی تھی
اچھا پھر بات کہاں نکلی
کچھ اور بھی یادیں بچپن کی
کچھ اپنے گھر کے آنگن کی
سب بتلا دو پھر سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو
یہ ٹھنڈی سانس ہواؤں کی
یہ جھلمل کرتی خاموشی
یہ ڈھلتی رات ستاروں کی
بیتے نہ کبھی تم سو جاؤ
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو

 

 

 

 

فیض لدھیانوی
نظم

اے نئے سال بتا تجھ میں نیاپن کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے

روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی

آسمان بدلا ہے افسوس نا بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں

اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے

تیرا من دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی میعاد بسر کر کے چلا جائے گا

جنوری فروری مارچ میں پڑے گی سردی
اور اپریل مئی جون میں ہو گی گرمی

تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی

بے سبب لوگ کیوں دیتے ہیں مبارک باديں
غالباً بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں

تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فیضؔ نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی

 

 

 

 

قیصر جعفری

دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے

کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو
شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے

آنکھوں کو بھی لے ڈوبا یہ دل کا پاگل پن
آتے جاتے جو ملتا ہے تم سا لگتا ہے

اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچھے گا
جو ملتا ہے اس کا دامن بھیگا لگتا ہے

دنیا بھر کی یادیں ہم سے ملنے آتی ہیں
شام ڈھلے اس سونے گھر میں میلہ لگتا ہے

کس کو پتھر ماروں قیصرؔ کون پرایا ہے
شیش محل میں اک اک چہرا اپنا لگتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *