Here Mentioned Top 12 Ghazals in Urdu in Text 

 

 

 

ادا جعفری

یہی نہیں کہ زخم جاں کو چارہ جو ملا نہیں
یہ حال تھا کہ دل کو اسم آرزو ملا نہیں

ابھی تلک جو خواب تھے چراغ تھے گلاب تھے
وہ رہ گزر کوئی نہ تھی کہ جس پہ تو ملا نہیں

تمام عمر کی مسافتوں کے بعد ہی کھلا
کبھی کبھی وہ پاس تھا جو چار سو ملا نہیں

وہ جیسے اک خیال تھا جو زندگی پہ چھا گیا
رفاقتیں تھیں اور یوں کہ روبرو ملا نہیں

تمام آئنوں میں عکس تھے مری نگاہ کے
بھرے نگر میں ایک بھی مجھے عدو ملا نہیں

وراثتوں کے ہاتھ میں جو اک کتاب تھی ملی
کتاب میں جو حرف ہے ستارہ خو ملا نہیں

وہ کیسی آس تھی ادا جو کو بہ کو لیے پھری
وہ کچھ تو تھا جو دل کو آج تک کبھو ملا نہیں

 

 

ادا جعفری

کوئی خبر بھی نہ بھیجی بہار نے آتے
کہ ہم بھی قسمت مژگاں سنوارنے آتے

پھر آرزو سے تقاضائے رسم و رہ ہوتا
نگہ پہ قرض تھے جتنے اتارنے آتے

یہ زندگی ہے ہر اک پیرہن میں سجتی ہے
نہیں تھی جیت نصیبوں میں ہارنے آتے

ابھی یہاں تو نہیں ہو سکی حکایت جاں
نئے ورق پہ نئے نقش ابھارنے آتے

کوئی شرر کوئی خوشبو کہ دل نہ بجھ جائے
کسی بھی نام سے خود کو پکارنے آتے

کبھی غبار کبھی نقش پائے راہرواں
وہ رہ گزر تھی کہ ہر روپ دھارنے آتے

مرا سکوں بھی مرے آنسوؤں کے بس میں تھا
یہ میہماں مری دنیا نکھارنے آتے

جو ہم نہیں تو سر رہ گزار درد اداؔ
وہ کون تھے جو دل و جاں کو وارنے آتے

 

 

 

نریش کمار شاد

کون سلگتے آنسو روکے آگ کے ٹکڑے کون چبائے
اے ہم کو سمجھانے والے کوئی تجھے کیوں کر سمجھائے

جیون کے اندھیارے پتھ پر جس نے تیرا ساتھ دیا تھا
دیکھ کہیں وہ کومل آشا آنسو بن کر ٹوٹ نہ جائے

اس دنیا کے رہنے والے اپنا اپنا غم کھاتے ہیں
کون پرایا روگ خریدے کون پرایا دکھ اپنائے

ہائے مری مایوس امیدیں وائے مرے ناکام ارادے
مرنے کی تدبیر نہ سوجھی جینے کے انداز نہ آئے

اس دنیا کے غم خانے میں غم سے اتنی فرصت کب ہے
کون ستاروں کا منہ چومے کون بہاروں میں لہرائے

ضبط بھی کب تک ہو سکتا ہے صبر کی بھی اک حد ہوتی ہے
پل بھر چین نہ پانے والا کب تک اپنا روگ چھپائے

شادؔ وہی آوارہ شاعر جس نے تجھ سے پیار کیا تھا
شہروں شہروں گھوم رہا ہے ارمانوں کی لاش اٹھائے

 

 

 

نریش کمار شاد

پھر اس دنیا سے امید وفا ہے
تجھے اے زندگی کیا ہو گیا ہے

بڑی ظالم نہایت بے وفا ہے
یہ دنیا پھر بھی کتنی خوشنما ہے

کوئی دیکھے تو بزم زندگی میں
اجالوں نے اندھیرا کر دیا ہے

خدا سے لوگ بھی خائف کبھی تھے
مگر لوگوں سے اب خائف خدا ہے

مزے پوچھو کچھ اس سے زندگی کے
حوادث میں جسے جینا پڑا ہے

مرے پہلو میں دل ہے تو یقیناً
ازل ہی سے مگر ٹوٹا ہوا ہے

زبان و فن سے میں واقف نہیں ہوں
مگر وجدان میرا رہنما ہے

مرے نقاد میری شاعری تو
مرے ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے

کہاں ہوں شادؔ میں تو شاد سا ہوں
وہ شاد خوش نوا تو مر چکا ہے

 

 

 

نریش کمار شاد

ڈوب کر پار اتر گئے ہیں ہم
لوگ سمجھے کہ مر گئے ہیں ہم

اے غم دہر تیرا کیا ہوگا
یہ اگر سچ ہے مر گئے ہیں ہم

خیر مقدم کیا حوادث نے
زندگی میں جدھر گئے ہیں ہم

یا بگڑ کر اجڑ گئے ہیں لوگ
یا بگڑ کر سنور گئے ہیں ہم

موت کو منہ دکھائیں کیا یا رب
زندگی ہی میں مر گئے ہیں ہم

ہائے کیا شے ہے نشۂ مے بھی
فرش سے عرش پر گئے ہیں ہم

آرزوؤں کی آگ میں جل کر
اور بھی کچھ نکھر گئے ہیں ہم

جب بھی ہم کو کیا گیا محبوس
مثل نکہت بکھر گئے ہیں ہم

شادمانی کے رنگ محلوں میں
شادؔ با چشم تر گئے ہیں ہم

 

 

 

آیت سناؤ صبر کی کوئی قرآن سے

ورنہ الجھ پڑوں گا میں سارے جہان سے

وہ شام آج تک مِرے سینے پہ نقش ہے

اک شخص پھر گیا تھا جب اپنی زبان سے

بے وجہ مبتلا ہیں مِرے خوف میں حریف

میں بات کرنے آیا تھا کچھ آسمان سے

اک روز مجھ کو آ کے خبر دی تھی دھوپ نے

محروم ہو گیا ہوں میں اک سائبان سے

احسن سلیمان

 

 

 

کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا
مجھے گھر کاغذی پھولوں سے مہکانا نہیں آتا

میں جو کچھ ہوں وہی کچھ ہوں جو ظاہر ہے وہ باطن ہے
مجھے جھوٹے در و دیوار چمکانا نہیں آتا

میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب
مجھے دنیا کی پستی میں اتر جانا نہیں آتا

زر و مال و جواہر لے بھی اور ٹھکرا بھی سکتا ہوں
کوئی دل پیش کرتا ہو تو ٹھکرانا نہیں آتا

پرندہ جانب دانہ ہمیشہ اڑ کے آتا ہے
پرندے کی طرف اڑ کر کبھی دانہ نہیں آتا

اگر صحرا میں ہیں تو آپ خود آئے ہیں صحرا میں
کسی کے گھر تو چل کر کوئی ویرانہ نہیں آتا

ہوا ہے جو سدا اس کو نصیبوں کا لکھا سمجھا
عدیمؔ اپنے کئے پر مجھ کو پچھتانا نہیں آتا

عدیم ہاشمی

 

 

 

الطاف حسین حالی

دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا

تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا

اے دل رضائے غیر ہے شرط رضائے دوست
زنہار بار عشق اٹھایا نہ جائے گا

دیکھی ہیں ایسی ان کی بہت مہربانیاں
اب ہم سے منہ میں موت کے جایا نہ جائے گا

مے تند و ظرف حوصلۂ اہل بزم تنگ
ساقی سے جام بھر کے پلایا نہ جائے گا

راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگر
دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا

کیوں چھیڑتے ہو ذکر نہ ملنے کا رات کے
پوچھیں گے ہم سبب تو بتایا نہ جائے گا

بگڑیں نہ بات بات پہ کیوں جانتے ہیں وہ
ہم وہ نہیں کہ ہم کو منایا نہ جائے گا

ملنا ہے آپ سے تو نہیں حصر غیر پر
کس کس سے اختلاط بڑھایا نہ جائے گا

مقصود اپنا کچھ نہ کھلا لیکن اس قدر
یعنی وہ ڈھونڈتے ہیں جو پایا نہ جائے گا

جھگڑوں میں اہل دیں کے نہ حالیؔ پڑیں بس آپ
قصہ حضور سے یہ چکایا نہ جائے گا

 

 

 

الطاف حسین حالی

کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں

قفس میں جی نہیں لگتا کسی طرح
لگا دو آگ کوئی آشیاں میں

کوئی دن بوالہوس بھی شاد ہو لیں
دھرا کیا ہے اشارات نہاں میں

کہیں انجام آ پہنچا وفا کا
گھلا جاتا ہوں اب کے امتحاں میں

نیا ہے لیجئے جب نام اس کا
بہت وسعت ہے میری داستاں میں

دل پر درد سے کچھ کام لوں گا
اگر فرصت ملی مجھ کو جہاں میں

بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

 

 

 

الطاف حسین حالی

جیتے جی موت کے تم منہ میں نہ جانا ہرگز
دوستو دل نہ لگانا نہ لگانا ہرگز

عشق بھی تاک میں بیٹھا ہے نظر بازوں کی
دیکھنا شیر سے آنکھیں نہ لڑانا ہرگز

ہاتھ ملنے نہ ہوں پیری میں اگر حسرت سے
تو جوانی میں نہ یہ روگ بسانا ہرگز

کوچ سب کر گئے دلی سے ترے قدر شناس
قدر یاں رہ کے اب اپنی نہ گنوانا ہرگز

جتنے رستے تھے ترے ہو گئے ویراں اے عشق
آ کے ویرانوں میں اب گھر نہ بسانا ہرگز

تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز

ڈھونڈتا ہے دل شوریدہ بہانے مطرب
دردانگیز غزل کوئی نہ گانا ہرگز

صحبتیں اگلی مصور ہمیں یاد آئیں گی
کوئی دلچسپ مرقع نہ دکھانا ہرگز

لے کے داغ آئے گا سینے پہ بہت اے سیاح
دیکھ اس شہر کے کھنڈروں میں نہ جانا ہرگز

چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہ خاک
دفن ہوگا کہیں اتنا نہ خزانہ ہرگز

مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو
اے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز

وہ تو بھولے تھے ہمیں ہم بھی انہیں بھول گئے
ایسا بدلا ہے نہ بدلے گا زمانہ ہرگز

ہم کو گر تو نے رلایا تو رلایا اے چرخ
ہم پہ غیروں کو تو ظالم نہ ہنسانا ہرگز

آخری دور میں بھی تجھ کو قسم ہے ساقی
بھر کے اک جام نہ پیاسوں کو پلانا ہرگز

بخت سوئے ہیں بہت جاگ کے اے دور زماں
نہ ابھی نیند کے ماتوں کو جگانا ہرگز

کبھی اے علم و ہنر گھر تھا تمہارا دلی
ہم کو بھولے ہو تو گھر بھول نہ جانا ہرگز

شاعری مر چکی اب زندہ نہ ہوگی یارو
یاد کر کر کے اسے جی نہ کڑھانا ہرگز

غالبؔ و شیفتہؔ و نیرؔ و آزردہؔ و ذوقؔ
اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانا ہرگز

مومنؔ و علویؔ و صہبائیؔ و ممنوںؔ کے بعد
شعر کا نام نہ لے گا کوئی دانا ہرگز

کر دیا مر کے یگانوں نے یگانہ ہم کو
ورنہ یاں کوئی نہ تھا ہم میں یگانہ ہرگز

داغؔ و مجروحؔ کو سن لو کہ پھر اس گلشن میں
نہ سنے گا کوئی بلبل کا ترانہ ہرگز

رات آخر ہوئی اور بزم ہوئی زیر و زبر
اب نہ دیکھو گے کبھی لطف شبانہ ہرگز

بزم ماتم تو نہیں بزم سخن ہے حالیؔ
یاں مناسب نہیں رو رو کے رلانا ہرگز

 

 

 

الطاف حسین حالی

حق وفا کے جو ہم جتانے لگے
آپ کچھ کہہ کے مسکرانے لگے

تھا یہاں دل میں طعن وصل عدو
عذر ان کی زباں پہ آنے لگے

ڈر ہے میری زباں نہ کھل جائے
اب وہ باتیں بہت بنانے لگے

ہم کو جینا پڑے گا فرقت میں
وہ اگر ہمت آزمانے لگے

جان بچتی نظر نہیں آتی
غیر الفت بہت جتانے لگے

تم کو کرنا پڑے گا عذر جفا
ہم اگر درد دل سنانے لگے

سخت مشکل ہے شیوۂ تسلیم
ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے

جی میں ہے لوں رضائے پیر مغاں
قافلے پھر حرم کو جانے لگے

سر باطن کو فاش کر یا رب
اہل ظاہر بہت ستانے لگے

وقت رخصت تھا سخت حالیؔ پر
ہم بھی بیٹھے تھے جب وہ جانے لگے

 

 

 

الطاف حسین حالی

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں

ہیں دور جام اول شب میں خودی سے دور
ہوتی ہے آج دیکھیے ہم کو سحر کہاں

اک عمر چاہیئے کہ گوارا ہو نیش عشق
رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں

یا رب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں

بس ہو چکا بیاں کسل و رنج راہ کا
خط کا مرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں

کون و مکاں سے ہے دل وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں

ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں

حالیؔ نشاط نغمہ و مے ڈھونڈھتے ہو اب
آئے ہو وقت صبح رہے رات بھر کہاں

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *