وہ زندگی سے کیا گیا دھواں اڑا کے رکھ دیا
مکاں کے اک ستون نے مکاں گرا کے رکھ دیا
وہ راہ سے چلا گیا تو راہ موڑ بن گئی
مرے سفر نے راستہ کہاں چھپا کے رکھ دیا
کسی دیے کی طرز سے گزر رہی ہے زندگی
یہاں جلا کے رکھ دیا وہاں بجھا کے رکھ دیا
وجود کی بساط پر بڑی عجیب مات تھی
یقیں لٹا کے اٹھ گئے گماں بچا کے رکھ دیا
سرکارادیب
قدموں میں شہنشاہِ دوعالم کے پڑا ہوں
جُھکتے ہیں جہاں سلطان میں بھی جُھکا ہوں
یقیناً اٌسِ بھی سہارا مِلا اِسی در سے
جس نے کہیں سے بھی پُکارا بے آسرا ہوں
اے عالم نہ اُلجھا مجھے لذتِ دُنیا میں
اِس وقت اُن کے ہجر میں سُلگتا ہوں
سلاطین بھی کرتے ہیں کاسہ میرے آگے
اِس غلامی پہ نازاں غلامِ شہہ بطحا ہوں
خالقِ دوجہاں اور ملائک باہم وردِ زباں
خَلق کو ساتھ لئے توصیفِ محبوبِ خدا ہوں
آلِ اہلِ بیت اور اصحاب رسول کا مطیع
مزید اپنے شیخِ کامل کا ٹہلوا ہوں
سرکارادیب
یہ جو ٹھہراؤ میرے لہجے میں نظر آتا ہے ۔۔۔
بڑے کہتے ہیں کہ برسوں میں نظر آتا ہے ۔۔۔
اک جہد مسلسل ہے جذبات پہ قابو رکھنا ۔۔۔
یہ سکوت ذرا سے عرصے میں کدھر آتا ہے ۔۔۔؟
خاموش رہتے ہوئے بھی گفتگو میں رہنا ۔۔۔
یہ سلیقہ بولتے ہی رہنے سے کدھر آتا ہے ۔۔۔؟
صعوبتیں جھیل کر پہنچا ہوں میں ورنہ ۔۔۔
کوئی اپنے آپ تک آسانی سے کدھر آتا ہے ۔۔۔؟
جسم جب دیر تلک ڈوبا رہے غم کے پانی میں ۔۔۔
تو پھر لاش بن کر سطح پر ابھر آتا ہے ۔۔۔
میں جو ٹھہر گیا ہوں تو اب کیا ضروری ہے ۔۔۔؟
وقت سے بار بار پوچھوں کہ کدھر آتا ہے ۔۔۔؟
اس زمانے سے میرا تو مقابلہ ہی نہیں ہے ۔۔۔۔
میرا زمانہ تو مجھے گزرا ہوا نظر آتا ہے ۔۔۔
سرکارادیب
قدم انساں کا راہِ دہر میں تھرّا ہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے، ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے
نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا، پھر بھی
ہجومِ کش مکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
خلافِ مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں، مگر ناصح
وہ آتے ہیں تو چہرہ پر تغیّر آ ہی جاتا ہے
ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر
مگر جو گھِر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے
شکایت کیوں اسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انساں کی
مصیبت میں خیالِ عیشِ رفتہ آ ہی جاتا ہے
شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں، یوں تو کہنے کو
مگر جو پھول بن جاتا ہے وہ کمھلا ہی جاتا ہے
سمجھتی ہیں مآلِ گل، مگر کیا زورِ فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسّم آ ہی جاتا ہے
سرکارادیب
تیری جُستجُو میں نکلے تو عَجَب سراب دیکھے
کبھی شب کو دن کہا ھے کبھی دن میں خُواب دیکھے..
میرے دل میں اِس طرح ھے تیری آرزو خراماں
کوئی نازنیں ھو جیسے جو کُھلی کتاب دیکھے..
جسے میری آرزو ھو جو خراب کُو بہ کُو ھو
مُجھے دیکھنے سے پہلے تُجھے بے نقاب دیکھے..
جسے کُچھ نظر نہ آیا ھو جہاں رنگ و بُو میں
وہ کُھلا گُلاب دیکھے وہ تیرا شباب دیکھے..
دو جہاں کو لا ڈبوئے وہ ذرا سی آب جو میں
تیری چَشمِ سُرمگیں کو جو کوئی پُر آب دیکھے..
یُوں ٹھہر ٹھہر کے گُزری شبِ انتظار یارو
کہ سحر کے ھوتے ھوتے کئی ھَم نے خُواب دیکھے..
مُجھے دیکھنا ھو جس کو میرے حال پر نہ جائے
میرا ذوق و شوق دیکھے میرا انتخاب دیکھے..
سرکارادیب
اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام
نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری
کہ شاخ شاخ اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
اجاڑ گھر میں کوئی چاند کب اترتا ہے
سوال مجھ سے یہ کرتی ہے تیرے ہجر کی شام
مرے سفر میں اک ایسا بھی موڑ آتا ہے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام
بہت عزیز ہیں دل کو یہ زخم زخم رتیں
انہی رتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ میرا دل یہ سراسر نگارخانۂ غم
سدا اسی میں اترتی ہے تیرے ہجر کی شام
جہاں جہاں بھی ملیں تیری قربتوں کے نشاں
وہاں وہاں سے ابھرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ حادثہ تجھے شاید اداس کر دے گا
کہ میرے ساتھ ہی مرتی ہے تیرے ہجر کی شام
سرکار ادیب
بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں
کہ ان کے خط انھیں لوٹا رہے ہیں
یہ مت بھولو کہ یہ لمحات ہم کو
بچھڑنے کے لئے ملوا رہے ہیں
تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے
ابھی کچھ لوگ دھوکہ کھا رہے ہیں
کسی صورت انھیں نفرت ہو ہم سے
ہم اپنے عیب خود گنوا رہے ہیں
دلیلوں سے اسے قائل کیا تھا
دلیلیں دے کے اب پچھتا رہے ہیں
وفا کی یادگاریں تک نہ ہوں گی
میری جاں بس کوئی دن جا رہے ہیں
سرکارادیب
رات یہ کون مرے خواب میں آیا ہوا تھا
صبح مــیں وادئ شاداب میں آیا ہوا تھا
اک پرندے کی طرح اُ ڑ گیا کچھ دیر ہوئی
عــکس اُس شخص کا تالاب میں آیا ہوا تھا
میں بھی اُس کے لیے بیٹھا رہا چھت پر شب بھر
وہ بھی میرے لیے مـہتاب میں آیا ہوا تھا
ســرد خط٘ے میں سـلگتا ہوا جنگل تھا بدن
آگ سے نـکلا تو بــــرفاب میں آیا ہوا تھا
یہ تو صد شکر خیالوں نے تــرے کھینچ لیا
میں تو حالات کے گرداب میں آیا ہوا تھا
یاد ہیں دل کو محبت کے شب و روز حسن
گاؤں جیسے کوئی سیلاب میں آیا ہوا تھا
سرکارادیب
میں اپنے دور کا شاعر ہوں
ہر دور سے ہو کر آیا ہوں
حافی سے ہے تہذیب چُرائی
زریون کی مستی لایا ہوں
نجمی کے پنجرے سے اُڑ کر
جنگل میں سیدھا آیا ہوں
عامر کے انداز میں سُن لو
جالب کی بغاوت لایا ہوں
گُلزار کی خوشبو ساتھ لئے
میں سرحد توڑ کر آیا ہوں
جون کو مُرشد مانا ہے
تعویذ محسن سے لایا ہوں
بچپن میں فیض کو سُنتا تھا
فراز کو پڑھ کر آیا ہوں
ساغر سے درویشی سیکھی
ناصر سے چرچہ لایا ہوں
درد کے درد کو پالا ہے
اور میر سے مصرعے لایا ہوں
غالب میرا ساقی ہے
اور جگر سے پیالہ لایا ہوں
امرتا روٹھی بیٹھی ہے
ساحر کو منانے لایا ہوں
اک یار منانا ہے مجھ کو
میں بُلھا بن کر آیا ہوں
وارث کا عشق حقیقی تھا
میں ھیر مجازی لایا ہوں
اقبال کو ہاتھ نہیں ڈالا
بس پاوں چوم کر آیا ہوں۔۔۔۔!!
سرکارادیب
تجھ کو ہر کام میں ہوتا ہے خسارا یارا
ایک جیسا ہی نصیبا ہے ہمارا یارا
بڑھ کے سینے سے لگا لے کہ بہت رونا ہے
مجھ میں اب اور نہیں ضبط کا یارا یارا
اک طرف مجھ کو ڈبونے پہ تلا ہے دریا
دوسری اور مخالف ہے کنارا یارا
کیا مرے درد کا درماں ہی نہیں ہے کوئی
کیا مرے غم کا نہیں کوئی بھی چارا یارا
جو بھی آتا ہے یہی کہہ کے چلا جاتا ہے
سخت مشکل ہے ترے ساتھ گزارا یارا
مجھ پہ ہوتا ہے گماں ٹوٹے ہوئے تارے کا
اک نظر دیکھ مری سمت دوبارا یارا
یہ جو ہر بات گوارا تجھے ہو جاتی ہے
یہ کسی طور نہیں مجھ کو گوارا یارا
سرکارادیب
اداسی ، رنج ، اذیت ، خسارے آجائیں
ہے جن سے گہرا تعلق وہ سارے آجائیں
تم اپنے اشک گراؤ مری ہتھیلی پر
مبادا پاؤں کے نیچے یہ تارے آجائیں
جو نیم جان تھے ، بے جان ہوگئے سو اُنہیں
ذرا سا موج اچھالے ، کنارے آ جائیں
کسی طرح تو یہ سکراتِ ہجر ٹوٹے بھی
اٹھا کے رحل ، وظیفے ، سپارے آ جائیں
لگے بندھے ہوئے مصرعے بدل سکوں اے کاش
خدایا ذہن میں کچھ استعارے آ جائیں
میں عشق کر کے بھی زندہ ہوں ، دیکھنے کے لیے
یہ ششدران ، یہ حیرت کے مارے ، آ جائیں
پناہ چاہئیے ؟ دی جان کی امان ، سو آپ
بلا جھجھک یہاں ، دل میں ہمارے آ جائیں
میں ایک پیڑ ہوں کہنے کی دیر ہے کومل
سبھی کے ہاتھوں میں کلہاڑے ، آرے آجائیں
سرکارادیب
خدا نے کیوں دل درد آشنا دیا ہے مجھے
اس آگہی نے تو پاگل بنا دیا ہے مجھے
تمہی کو یاد نہ کرتا تو اور کیا کرتا
تمہارے بعد سبھی نے بھلا دیا ہے مجھے
صعوبتوں میں سفر کی کبھی جو نیند آئی
مرے بدن کی تھکن نے اٹھا دیا ہے مجھے
میں وہ چراغ ہوں جو آندھیوں میں روشن تھا
خود اپنے گھر کی ہوا نے بجھا دیا ہے مجھے
بس ایک تحفۂ افلاس کے سوا ساقیؔ
مشقتوں نے مری اور کیا دیا ہے مجھے
سَکُوت لہجہ ، اَدُھوری آنکھیں ، جَمود سوچِیں تِیرا تَصّور
اَلفاظ بِکھرے ، مِزاج مَدھّم ، ناراض مَوجِیں تِیرا تَصّور
عَذاب لَمحے ، خِراج آھیں ، بَرات خوشیاں ، جِہات بَرہم
تَمّنا رُخصَت ، دَفن اُمیدیں ، بـے رَنگ سَوچِیں تِیرا تَصّور
جَوان رَنجِش و دَرد تازہ ، اُدھار سانسِیں ، جُھلستا آنگن
وِیران دَامن ، اُجاڑ پہلو ، وُہ تِیری کَھوجِیں تِیرا تَصّور
سَوال عادت ، جَواب حِکمت ، عِلاج دَرشن ، مریض عُجلت
جَمال مَقّصُود ، حسن مَفقُود ، نِگاھیں پُوچھیں تِیرا تَصّور
اَنجان راھیں ، فَریب بانہیں ، نَقاب چِہرے ، سَرد نِگاھیں
ہَمدرد بارش ، ھے دِلکی خواھش ، پلٹ کے لَوٹے تِیرا تصور
اَصنام پَتھر ، قُلوب پَتھر ، اَنّائیں پَتھر ، اِنسان پَتھر
سَکُون دِلبر ، نرم کلامی ، گَداز سوچِیں تِیرا تَصّور
زوال دُوری ، کمال جِینا ، مُحال سہنا ، وَبال کہنا
وُہ تلخ لمحے ، زہر لہو میں تریاق چاھیں تِیرا تَصّور
سرکارادیب