ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ

اک شاعری عرض کی جائے!
” ان خزاں رسید پتوں پر”🍁
🍁”ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ ﭘﮭﺮ ﺍﺩﺍﺱ ﮨﮯ”
ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺳﯽ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺩﻭﺭ ﺗﮏ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺑﮯ ﺭﺧﯽ ﮐﺎ ﻣﻮﺳﻢ ﮨﮯ
ﺁﺝ ﭘﮭﺮ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ
ﺑﯿﺘﮯ ﭘﻞ ﮐﯽ ﭘﯿﺎﺱ ﮨﮯ
ﭘﮭﺮ ﺭہی ﮨﻮﮞ ﺩﺭ ﺑﺪﺭ
🍁ﮐﺴﯽ ﻣﻌﺠﺰﮮ ﮐﯽ ﺁﺱ ﮨﮯ
ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ
“ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ ﭘﮭﺮ ﺍﺩﺍﺱ ﮨﮯ”
ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﮐﺮﮮ ﮐﻮﺋﯽ
ﺳﺎﺗﮭﮧ ﺗﻮ ﭼﻠﮯ ﮐﻮﺋﯽ
🍁ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﺎ ﭘﮩﺮﺍ ﮨﮯ
ﺯﺧﻢ ﺩﻝ ﮐﺎ ﮔﮩﺮﺍ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﯽ
ﺁﺝ ﭘﮭﺮ ﺗﻼﺵ ﮨﮯ
ﺍﯾﺴﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ
“ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ ﭘﮭﺮ ﺍﺩﺍﺱ ﮨﮯ”.

 

اکتوبر کی سرد شام
خزاں کے خشک پتے
ہوا کے سرد جھونکے
موسم بدل رہا ہے جاناں !
اور تم کہا کرتے تھے
سبز موسم مستقل رہے گا..!
\

اکتوبر
یہ اکتوبر کے روز و شب
صبح اور شام میں ہلکی سی کچھ خنکی
مگر دوپہر میں اب تک تمازت راج کرتی ہے
کڑکتے گرم دن کے سنگ
ملائم نرم سے جھونکے
ہوا اور دھوپ میں جیسے
عجب سی کھینچا تانی ہے
ہے آب و تاب پر سورج
ہوا لیکن ہے کچھ کچھ سرد
اسی مخلوط موسم سے
جنم پت جھڑ کا ہوتا ہے
کبھی خنکی, کبھی گرمی
بھلا کب تک سہے کوئی
ہراول رت, یکایک زرد ہوتی ہے
بہت سے نت نئے رنگ
چار سو یوں چھانے لگتے ہیں
کہ گویا, سب درختوں نے
کئی جنموں کے دکھ اپنے
حسیں جھومر کی مانند
اپنے چہروں پر سجاۓ ہیں
کہیں زردی, کہیں سرخی
کہیں بھورے, کہیں خاکی
ہری شاخوں کے بوجھل تن
ہر اک دکھ سے بدن آزاد کرتے ہیں
بالآخر ہار کر پتے
اترتے ہیں, بکھرتے ہیں
ہوا سنگ اڑتے پھرتے ہیں,
اسی رت کے ہی اک پل میں
ہوا تھا جنم بھی میرا,
اسی رُت کا اثر شاید
میری قسمت,
طبیعت اور میرے دل پہ یوں ہے کہ,
اداسی , تشنگی, محرومیوں اور حسرتوں کے دکھ,
میرے دل کے نہاں خانوں میں
ہر دم پلتے رہتے ہیں,
بہت سے رنگ لے کر,
میری نظموں میں اترتے ہیں,
مگر ہے فرق بس اتنا
کہ نہ بخشی گئی مجھ کو,
طلمساتی صلاحیت ‘برگ ریزی’ کی…
مجھے تاعمر
اس گٹھڑی کو لے کر,ساتھ چلنا ہے…!

عنبرین خان

سرد ہواؤں کی ہی دستک سے
کیوں یادوں کی کھڑکی کھلتی ہے
کچھ قصے پرانے یاد آتے ہیں
آنکھوں میں نمی سی گھلتی ہے
کچھ رشتے چھب دکھلاتے ہیں
اور دل کی دھڑکن تھمتی ہے
کچھ نغمے جب گنگناتے ہیں
ہونٹوں کی کلی بھی کھلتی ہے
پر پھر بھی نہ جانے کیوں
اس سرد ہوا کے گھیرے میں
بے نام اداسی بستی ہے
جو دھیرے دھیرے ڈستی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *