Nasir Kazmi, born in 1925, was a celebrated Urdu poet whose works continue to resonate with readers worldwide. Influenced by classical poets and his upbringing, Kazmi’s poetry explored themes of love, longing, and the human condition. His simple yet profound style, rich with imagery and metaphor, made his verses accessible and deeply moving. Kazmi’s legacy extends beyond his poetry, as he also translated Western literary classics into Urdu. His enduring influence on Urdu literature reminds us of the power of language to connect and inspire across generations.
اہل دل آنکھ جدھر کھولیں گے
اک دبستانِ ہنر کھولیں گے
وہیں رک جائیں گے تاروں کے قدم
ہم جہاں رختِ سفر کھولیں گے
ناصر کاظمی
مشکل ہے پھر مِلیں کبھی یارانِ رفتگاں
تقدیر ہی سے اب یہ کرامات ہو تو ہو
ناصر کاظمی
زباں سخن کو ، سخن بانکپن کو ترسے گا
سخن کدہ ، میری طرزِ سخن کو ترسے گا
نئے پیالے سہی ، تیرے دور میں ساقی
یہ دور ، میری شرابِ کہن کو ترسے گا :-
ناصر کاظمی ✨
بیٹھ کر سایہ ِ گل میں ناصر
ہم بہت رؤئے وہ جب یاد آیا
ناصر کاظمی
جدائیوں کے زخم، درد زندگی نے بھر دیئے
تجھے بھی نیند آگئی، مجھے بھی صبر آ گیا
پکارتی ہیں فرصتیں، کہاں گئیں وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی انہیں کہ آسمان کھا گیا
ناصر کاظمی
میں نے تو ، اِک بات کہی تھی
کیا تُو سَچ مُچ ، رُوٹھ گیا ھے؟
ایسا گاھک کون ھے ، جِس نے
سُکھ دے کر ، دُکھ مول لیا ھے
“ناصر کاظمی”
یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
ناصرؔ کاظمی
تیری مجبوریاں درست مگر
تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر
ناصر کاظمی
دِل میں اور تو کیا رکھا ہے
تیرا دَرد چھپا رکھا ہے
اِتنے دُکھوں کی تیز ہَوا میں
دِل کا دِیپ جلا رکھا ہے
دُھوپ سے چہروں نے دُنیا میں
کیا اندھیر مچا رکھا ہے
اِس نگری کے کُچھ لوگوں نے
دُکھ کا نام دَوا رکھا ہے
وعدۂ یار کی بات نہ چھیڑو
یہ دھوکا بھی کھا رکھا ہے
بُھول بھی جاؤ بیتی باتیں
اِن باتوں میں کیا رکھا ہے
چُپ چُپ کیوں رہتے ہو ناصرؔ
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے
ناصرؔ کاظمی
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا
(ناصر کاظمی )
یوں کس طرح کٹے گا ، کڑی دُھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی ، چادر ھی لے چلیں
اِس شہر بے چراغ میں ، جائے گی تُو کہاں؟؟
آ اے شبِ فِراق , تجھے گھر ھی لے چلیں۔
“ناصر کاظمی”
یاس میں جب کبھی آنسو نکلا
اک نئی آس کا پہلو نکلا
لے اڑی سبزہ خود رو کی مہک
پھر تیری یاد کا پہلو نکلا
ناصر کاظمی
عشق میں جیت ہوئی یا مات
آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات
یوں آیا وہ جانِ بہار
جیسے جگ میں پھیلے بات
رنگ کھُلے صحرا کی دھوپ
زلف گھنے جنگل کی رات
کچھ نہ کہا اور کچھ نہ سُنا
دل میں رہ گئی دل کی بات
یار کی نگری کوسوں دور
کیسے کٹے گی بھاری رات
بستی والوں سے چھپ کر
رو لیتے ہیں پچھلی رات
سنّاٹوں میں سنتے ہیں
سُنی سُنائی کوئی بات
پھر جاڑے کی رت آئی
چھوٹا دن اور لمبی رات
ناصر کاظمی…
کچھ یاد گارِ شہرِ ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اِس گلی میں تو پتّھر ہی لے چلیں
یُوں کس طرح کٹے گا کڑی دُھوپ کا سَفر
سَر پر خیالِ یار کی ، چادَر ہی لے چلیں
رنجِ سَفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاکِ کوچۂ دِلبر ہی لے چلیں
یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دِل گرفتگی
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں
اِس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شبِ فراق ، تجھے گھر ہی لے چلیں
شاعر : ناصرؔ کاظمی
وعدۂ یار کی بات نہ چھیڑو
یہ دھوکا بھی کھا رکھا ھے
بُھول بھی جاؤ بیتی باتیں
اِن باتوں میں کیا رکھا ھے
“ناصر کاظمی”
بیٹھ کر سایہ ِ گل میں ناصر
ہم بہت رؤئے وہ جب یاد آیا
ناصر کاظمی
دفعتاً دل میں کسی یاد نے لی انگڑائی
اس خرابے میں یہ دیوار کہاں سے آئی
آج کھلنے ہی کو تھا درد محبت کا بھرم
وہ تو کہئے کہ اچانک ہی تری یاد آئی
بس یوں ہی دل کو توقع سی ہے تجھ سے ورنہ
جانتا ہوں کہ مقدر ہے مرا تنہائی
نشۂ تلخیٔ ایام اترتا ہی نہیں
تیری نظروں نے گلابی تو بہت چھلکائی
یوں تو ہر شخص اکیلا ہے بھری دنیا میں
پھر بھی ہر دل کے مقدر میں نہیں تنہائی
ڈوبتے چاند پہ روئی ہیں ہزاروں آنکھیں
میں تو رویا بھی نہیں تم کو ہنسی کیوں آئی
رات بھر جاگتے رہتے ہو بھلا کیوں ناصرؔ
تم نے یہ دولت بیدار کہاں سے پائی
ناصر کاظمی
دیار دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا
وہ دوستی تو خیر اب نصیب دشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا
جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی انہیں کہ آسمان کھا گیا
یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئنے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا
یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کو نیند آ گئی
وہ لہر کس طرف گئی یہ میں کہاں سما گیا
گئے دنوں کی لاش پر پڑے رہو گے کب تلک
الم کشو اٹھو کہ آفتاب سر پہ آ گیا
ناصر کاظمی
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی
اور یہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی
شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آ رہی ہے ابھی
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ناصر کاظمی