Hafiz Muhammad Azam, a visionary leader born in Pakistan, dedicated his life to serving humanity and advocating for justice and equality. From his humble beginnings, Azam pursued education fervently, recognizing its potential to uplift individuals and communities. He became a beacon of compassion, establishing schools and programs to empower marginalized groups and championing causes on a global scale. Azam’s legacy inspires a new generation to embrace empathy, resilience, and service, reminding us of the profound impact one individual can have on shaping a better world.
اے دل تم کیوں کرتے ہو اُسکی سفارش
اُس نے مانی تھی تمہاری گُزارش؟
بھول گیا اگر تو ، اُس بے وفا کو
شُکریہ ، مہربانی ، نوازش
منقبت
یا اللہ جو منگی پوری دعا کردے
حسن حُسین دے در مینوں گدا کردے
جہناں اُتے آپ وفاواں ناز کرن
سیدہ پاک دے لال نیں انج وفا کردے
آل نبیﷺ دے نال جے ہووے بغض اندر
بے شک ایسے دل نوں جسموں جدا کردے
آل نبیﷺ دا لوکو ادب ضروری اے
بے ادبے خود اپنا ایمان تباہ کردے
سخیاں دے سرداراں دے توں ناں اُتوں
تن من حافظ اعظمؔ اپنا فدا کردے
شاعر ✍️ حافظ محمد اعظم
ہر تعلقات میں انتشار پھیل رہا ہے
اور ہم سمجھ رہے ہیں کہ پیار پھیل رہا ہے
اتنی تیزی سے تو جنگل میں آگ نہیں پھیلتی
جتنی تیزی سے یہ کاروبار پھیل رہا ہے
دولت کے عوض رشتوں کی فروخت
جرم یہ اب سرِبازار پھیل رہا ہے
اِک بے قصور کی گرفتاری نے یہ راز کھولا
مجرموں کا دائرہ اختیار پھیل رہا ہے
ذرا سنیے 🤭
ذرا سُنیے ہماری بھی بات جناب
اِک دن تو آپکو بھی دینا پڑے گا حساب
یہ رُتبہ یہ شہرت صدا تو نہیں رہتی
معلوم تو ہوگا آپکو جناب عزت مآب
ارے چھوڑیئے مت کسی سے قسم لیجئے
کام کوئی نہیں آئےگا یہ بات سمجھ لیجئے
رنگ بدل جائے گا اِن سب کا بھی اکِ دن
جو آج بڑے ادب سے کرتے ہیں آپکو آداب
وقت بدلنے سے پہلے راہِ راست پر آجائیے
غرور تکبر کو چھوڑ کر درخواست پر آجائیے
شام ہوتے ہی اُسے بھی غروب ہونا پڑتا ہے
آسمان میں جو چمک رہا ہے وہ آفتاب
اسلام بھی یہی بتاتا ہے اعظمؔ
عاجزی وانکساری بے حد ہے لازم
یقین نہیں آتا تو بے شک پڑھیئے
تاریخ کی آپ کوئی بھی کتاب
کس نے کہا اُس کو بھول جائیں گے ہم
یہ قدم بھلا کیسے اُٹھائیں گے ہم
روٹھا ہوا شخص مان بھی تو سکتا ہے
یہی سوچ کر پھر اُس کو منائیں گے ہم
یقین مانو لب کشائی نہیں ہے ہماری عادت
پھر بھلا کیسے اُس کو رلائیں گے ہم
وہ اک اشارہ تو کرے ہمیں بیٹھنے کا
جہاں پر کھڑے ہیں وہیں بیٹھ جائیں گے ہم
ضروری نہیں کہ ہر شخص مطلب پرست ہو
سچ یہ اُس کو ثابت کرکے دکھائیں گے ہم
سالوں پرانا تعلق تھا کچھ تو مان رکھ لیتے
تم خود بیوفا نکلے دل کو یہ سمجھائیں گے ہم
پوری دنیا قائم ہے امید پر اعظم
یہی حوصلہ دے کر دل کو بہلائیں گے ہم
شاعر ✍️ حافظ محمد اعظم
دینِ رب نوں بچان والاحسینؓ نئیں اے تے دس کون ایں؟
اپنا سب کُجھ لُٹان والا حسینؓ نئیں اے تے دس کون ایں؟
سخی وی اُس دی سخا نوں منے، وفا وی اُس دی وفا نوں منے
سبق وفا دا پڑھان والا حسینؓ نئیں اے تے دس کون ایں؟
جدوں سی سارے کنارہ کرگئے ، دین نوں بے سہارا کرگئے
سہارا بن اوہ آن والا حسینؓ نئیں اے تے دس کون ایں؟
آواز وی اے سب دی پیاری، پڑھ دے قرآن لکھاں قاری
نیزے چڑھ کے سُنان والا حسینؓ نئیں اے تے دس کون ایں؟
یزید تے بے شُمار لعنت، کڑوڑاں لکھاں ہزارلعنت
نام اُس دا مٹان والا حسینؓ نئیں اے تے دس کون ایں؟
تے کفار دینا سی جین ساہنوں ، نہ ملدا اعظمؔ جے دین ساہنوں
اے دین ساہنوں دلان والا حسینؓ نئیں اے تے دس کون ایں؟
تے سارے ائی کرنا تعظیم لازم، حسینؓ نام ایں عظیم اعظمؔ
عظیم شاناں اوہ پان والا حسینؓ نئیں تے دس کون ایں؟
شاعر ✍️ حافظ محمد اعظم
اُس کی باتوں میں اتنی مٹھاس، کچھ تو گڑ بڑ ہے
حد سے زیادہ اُس کا اخلاص،کچھ تو گڑ بڑ ہے
دُکھ اور غم دینے والا آج خود
بن بیٹھا ہے غم شناس، کچھ تو گڑ بڑ ہے
ہمارا لہجہ تو بہت ناپسند تھا اُس کو
اچانک کیسے آگیا راس، کچھ تو گڑ بڑ ہے
اور غلط تھا فیصلہ اُس کا سو فیصد
یہ کیسے ہوا اُس کو احساس، کچھ تو گڑ بڑ ہے
یقیناً ٹوٹا ہوگا اعتبار اُس کا
یا پھر ٹوٹی ہے کوئی آس، کچھ تو گڑ بڑ ہے
ہم نے سنی تھی آواز کسی اور کی بھی اعظم،
اُس نے کہا کوئی نہیں تھا پاس، کچھ تو گڑ بڑ ہے
اس کے اور میرے درمیان اگر ، اتنی دوری نہ ہوتی
چائے اتنی شدت سے پینا، میری مجبوری نہ ہوتی
دوست کی مفلسی پر سوال نہیں اُٹھانے دوں گا
میں کبھی دوستی میں دولت کو نہیں آنے دوں گا
اور چھوڑنی پڑی تو چھوڑ دوں گا ساری دولت اعظمؔ
دولت کی آگ کو رشتے نہیں جلانے دوں گا
نعت شریف
دُکھ درد کے مارے ہیں سرکارﷺ کرم کرنا
جیسے ہیں تمہارےﷺ ہیں سرکارﷺ کرم کرنا
گہنگار گناہوں سے توبہ کی طلب لے کر
آئے تیرےﷺ دوارے ہیں سرکارﷺ کرم کرنا
ہم سب کو ملے صدقے اُن سب کا میرے آقاﷺ
جو تیرےﷺ پیارے ہیں سرکار ﷺ کرم کرنا
جادیکھیں گے ہم اعظمؔ اِک دن وہ مدینے کے
کیسے وہ نظارے ہیں ، سرکارﷺ کرم کرنا
شاعر ✍️ حافظ محمد اعظم
منقبت
جشنِ علیؓ ہم منائیں گے
یاالله توفیق دے
ذکرِ علیؓ ہم سُنائیں گے
یاالله توفیق دے
پیارےپیارے سوہنے سوہنے علیؓ مولا
سوہنے سوہنے پیارے پیارے علیؓ مولا
پیار نبیﷺ سے ہے تو سُن لو
پیار علیؓ سے کرنا ہوگا
پیار یہ دل میں بسائیں گے
یا الله توفیق دے
علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ مولا
علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ مولا
علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ مولا
علیؓ مولا علیؓ مولا علیؓ علیؓ
پیار نبیﷺ کی آل کا دل میں
ہوگا ہم کرتے ہیں وعدہ
اور یہ وعدہ نبھائیں گے
یا الله توفیق دے
علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ مولا
علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ مولا
علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ مولا
علیؓ مولا علیؓ مولا علیؓ علیؓ
شیرِ خدا کے شہزادوں نیں
مانگی ہوگی دُعا یہ رب سے
دین کو ہم ہی بچائیں گے
یا الله توفیق دے
علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ مولا
علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ مولا
علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ علیؓ مولا
علیؓ مولا علیؓ مولا علیؓ علیؓ
آنا جن کا ہے کعبے میں
اُن کی اس تعظیم پہ اعظمؔ
ہم تو فدا ہو جائیں گے
یا الله توفیق دے
شاعر ✍️ حافظ محمد اعظم
تے پاک اپنا وجود کریے
نبیﷺ تے سارے درود پڑھیے
درد پڑھناں عظیم کم ایں
لباں تے جاری اے مردے دم ایں
اے ٹال سکدے نیں قبر دی سختی
کریم آقاﷺ عظیم ہستی
اجے وی اعظم اےگل من لے
درد پڑھ پڑھ توں پلے بن لے
جدوں فرشتے سوال پُچھن
ایہو پیش لا محدود کریے
نبیﷺ تے سارے درود پڑھیے
تے پاک اپنا وجود کریے
شاعر ✍️ حافظ محمد اعظم
بے وفا پٹرول تیری بے وفائی مار ڈالے گی
تو ہم سے اِتنا دور جا رہا ہے کہ تیری جدائی مار ڈالے گی
کیسے چلیں گے تیرے بغیر موٹر سائیکلیں غریبوں کی
ہم غریبوں کو غریبی کی دُھائی مار ڈالے گی
توں مہنگا ہو ا ہے اے کاش یہ جھوٹ ہوجائے
اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ سچائی مار ڈالے گی
پہلے ڈالر ، پھر پٹرول ، پھر آٹا اور گھی
رفتہ رفتہ بڑھتی ہوئی مہنگائی مار ڈالے گی
اور اے کاش اِن سب حکمرانوں سے جان چھوٹ جائے اعظم
ورنہ اِن حکمرانوں کی لب کُشائی مار ڈالے گی
شاعر ✍️ حافظ محمد اعظم
اب تو رشتوں میں اتنا سا سروکار رہا
جس کو دیکھو دولت کا طلبگار رہا
اور میں نے اُس شخص کو پل پل مرتے دیکھا
بنا دولت کے جو ڈھونڈتا پیار رہا
اور سچ پہ جھوٹ کو ترجیح کوئی نئی بات نہیں
سچ تو ہمیشہ سے ہی مُشکل کا شکار رہا
اور رنجشیں مٹا کر دلوں کو ملانے آتا کوئی
مرتے دم تک ایسے شخص کا انتظار رہا
اور اب تو مقدس رشتے بھی تنہا نہیں چھوڑے جاتے
اس قدر وہم میں مبتلا اعتبار رہا
اور یونیورسٹیوں میں دیکھ کر تعلیم کے جنازے
شرم سے ڈوب مرنے کو کوئی نہ تیار رہا
محفل ہی نہیں تنہائی بھی رہی جسکی پاک
خوش قسمت ہے وہ جسکا ایسا کردار رہا
اور ایک سجدے سے انکار کی سزا کو دیکھ کر بھی تو
روزانہ کتنے سجدوں سے کرتا انکار رہا
اور ماں باپ کو رُلانے والا ہر شخص اعظمؔ
اوپر سے رہا نہ رہا اندر سے شرمسار رہا
بے وفاؤں کے شہر کا شہنشاہ بیٹھا ہے
آج لگتا ہے پھر کسی کا دل دکھا بیٹھا ہے
اور وہ جو اُڑا کرتا تھا آسمانوں کی بلندیوں پر
بلندیوں سے گرا ہے تو زمیں پر بے بہا بیٹھا ہے
اور جس کی خاطر جس کو چھوڑا اُس نے پھر اِس کو چھوڑا
آنسو اس کے بتا رہے ہیں جیسے پاکر سزا بیٹھا ہے
پاؤں میں چھالے ہیں،سرپہ چوٹیں
زخم تو اس کے ہیں انوکھے
خود ہی خود کے جسم کا وہ کافی حصہ جلا بیٹھا ہے
در بدر وہ کھا رہا ہے ٹھوکریں اب رات دن
اپنے گھر کو وہ جانے والا راہ و رستہ بھلا بیٹھا ہے
کیا یہ دولت, کیا شہرت اُس کے کام آئے گی اعظم
کیونکہ اس کی خاطر وہ تو اپنوں سے گنوا بیٹھا ہے
رفتہ رفتہ وہ میرے ہاتھ سے نکلتا گیا
جیسے جیسے آگ میں لوہا پگھلتا گیا
اُس کی قسمیں اُس کے وعدے اُس کی باتیں وہ اِرادے
آہستہ آہستہ وہ یہ سب کچھ نگھلتا گیا
ہم تو دل کے اندر تھے پھر اچانک باہر جا گرے
جیسے جیسے پیار کا پانی اُبلتا گیا
کون کہتا ہے کہ صرف ریت ہاتھ سے پھسلتی ہے
میرا پیار بھی اُسیکے ہاتھوں سے پھسلتا گیا
اور اب سکوں ہے مجھ کو الحمدللہ اعظم
جیسے جیسے وہ میرے رابطوں سے نکلتا گیا
زندگی کی خواہشات میں کھوچکا ہے ہر انسان
خوش رہنے کے لیے ہر وقت ہرتا ہے پریشان\
زندگی کی خواہشات میں کھوچکا ہے ہر انسان
خوش رہنے کے لیے ہر وقت ہرتا ہے پریشان
بھرم ٹوٹ گئے سارے ، اعتبار کا ہوگیا خون
انا للہ وانا الیہ راجعون
مٹی ڈالو ، دفنادو اِس حماقت کو
مت برباد کرو اپنی ، زندگی کا سکون