Mohsin Naqvi, a renowned Urdu poet, captivates readers with his timeless poetry, which delves into themes of love, spirituality, and social justice. Born in Pakistan in 1947, Naqvi’s verses reflect a deep introspection into the human psyche, portraying emotions with profound philosophical insights. His romantic poetry transcends earthly desires, embracing a divine longing for eternal union. Naqvi’s spirituality shines through his verses, offering solace and enlightenment to seekers on a spiritual journey. Through vivid imagery and symbolism, he paints a rich tapestry of emotions, transporting readers to ethereal realms. Despite his untimely demise in 1996, Naqvi’s legacy lives on, inspiring countless individuals to embrace the beauty of literature in their quest for love, truth, and meaning.

 

‏بامِ شہرت پہ تو پُوجا مجھے لوگوں نے، مگر
ساتھ آیا نہ کوئی کوچہء رسوائی تک۔۔!

وہ تری آنکھ ہو یا سنگِ ملامت کی چُبھن
کون پہنچا ہے مرے زخم کی گہرائی تک۔۔!

محسنؔ نقوی 🖤

 

‏بامِ شہرت پہ تو پُوجا مجھے لوگوں نے، مگر
ساتھ آیا نہ کوئی کوچہء رسوائی تک۔۔!

وہ تری آنکھ ہو یا سنگِ ملامت کی چُبھن
کون پہنچا ہے مرے زخم کی گہرائی تک۔۔!

محسنؔ نقوی 🖤

 

دیکھا نہ کسی نے بھی میری سمت پلٹ کر
محسن میں بکھرتے ہوئے شیشے کی صدا تھا

محسن نقوی 💔 ✍

دیکھا نہ کسی نے بھی میری سمت پلٹ کر
محسن میں بکھرتے ہوئے شیشے کی صدا تھا

محسن نقوی 💔 ✍

 

بخشا ہے جس نے روح کو زخموں کا پیرہن
محسنؔ وہ شخص کتنا طبیعت شناس تھا

محسن نقوی

بخشا ہے جس نے روح کو زخموں کا پیرہن
محسنؔ وہ شخص کتنا طبیعت شناس تھا

محسن نقوی

 

ہم یوسفِ زماں تھے ابھی کل کی بات ہے
تم ہم پہ مہرباں تھے ابھی کل کی بات ہے

وہ دن بھی تھے کہ ہم ہی تمہاری زباں پہ تھے
موضوعِ داستاں تھے ابھی کل کی بات ہے

جن دوستوں کی آج کمی ہے حیات میں
وہ اپنے درمیاں تھے ابھی کل کی بات ہے

کچھ حادثوں سے گر گئے محسن زمین پر
ہم رشکِ آسماں تھے ابھی کل کی بات ہے

محسن نقوی

 

دیکھنے والے اُسے دیکھتے رہ جاتے تھے!!!
ہائے!!!! وہ شخص محبت کا خُدا لگتا تھا

(محسن نقوی

دیکھنے والے اُسے دیکھتے رہ جاتے تھے!!!
ہائے!!!! وہ شخص محبت کا خُدا لگتا تھا

(محسن نقوی

 

اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم 
بہت اداس لگا خال و خد سنوار کے بھی 

اب ایک پل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے 
ہم اہل دل کبھی عادی تھے انتظار کے بھی

محسن نقوی

اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم
بہت اداس لگا خال و خد سنوار کے بھی

اب ایک پل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے
ہم اہل دل کبھی عادی تھے انتظار کے بھی

محسن نقوی

 

مانا کہ تیرے دل میں کوئی اور مکیں ہے
تو پھر بھی میرا دل ہے، عقیدہ ہے، یقیں ہے

یہ آئینے تجھے تیری خبر دے نہ سکیں گے
آ دیکھ میری آنکھ سے، تُو کتنا حسیں ہے

میں جبر کے سجدوں سے کہیں ٹوٹ نہ جاؤں
پتھر کے خداؤ ! میری شیشے کی جبیں ہے

پلکوں سے تراشا تھا کبھی ہم نے جو ہیرا
مت پوچھ اب وہ کس کی انگوٹھی کا نگیں ہے.

محسن نقوی

 

ایسا ٹوٹا ہے تمناؤں کا پندار کہ بس !!
دل نے جھیلے ہیں محبت میں وہ آزار کہ بس !!

یہ تو اک ضد ہے کہ محسن میں شکایت نہ کروں
ورنہ شکوے تو ہیں اتنے میرے یار کہ بس....!!
محسن نقوی

ایسا ٹوٹا ہے تمناؤں کا پندار کہ بس ____!!
دل نے جھیلے ہیں محبت میں وہ آزار کہ بس __!!

یہ تو اک ضد ہے کہ محسن میں شکایت نہ کروں
ورنہ شکوے تو ہیں اتنے میرے یار کہ بس….!!

محسن نقوی

 

زندگی پھول ہے، خوشبو ہے، مگر یاد رہے
زندگی گردشِ حالات بھی ہوسکتی ہے
 محسن نقوی

زندگی پھول ہے، خوشبو ہے، مگر یاد رہے
زندگی گردشِ حالات بھی ہوسکتی ہے
محسن نقوی

 

مرا هر خواب مرے سچ کی گواهی دے گا
وسعت دید نے تجھ سے تری خواهش کی هے

مری سوچوں میں کبهی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تری پرستش کی هے 
محسن  نقوی

مرا هر خواب مرے سچ کی گواهی دے گا
وسعت دید نے تجھ سے تری خواهش کی هے

مری سوچوں میں کبهی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تری پرستش کی هے
محسن نقوی

اِک خوابِ حنا بار سے آنکھیں ہیں گلابی
اِکــ  دردِ  دل  آویــــز  نگھبــان  ھـــے  میرا

لازم ھے کہ ہر شام  ہتھیلی  پہ  رکھوں  دل
وہ شخص ناں آ کر بھی تو مہمان ھے میرا

  محسن نقوی✍

اِک خوابِ حنا بار سے آنکھیں ہیں گلابی
اِکــ دردِ دل آویــــز نگھبــان ھـــے میرا

لازم ھے کہ ہر شام ہتھیلی پہ رکھوں دل
وہ شخص ناں آ کر بھی تو مہمان ھے میرا

محسن نقوی✍

 

 

آیا نہ تجھے راس، کوئی گھر بھی، قفس بھی
اب اے دل کم ظرف، کسی شہر میں بس بھی

ٹھکرا کے جو آیا ہے سمندر کی سخاوت
اب دشت مسافت میں، گھٹاؤں کو ترس بھی

میں پیاس کا صحرا، کہ گزر گاہ ہوں تیری
تو ابر کی صورت ہے، کبھی مجھ پہ برس بھی

محسن مجھے چھیڑیں گے بہت چاند، ندی، پھول
آیا نہ میرا یار______اگر اب کے برس بھی

محسن نقوی

 

چلو ترکِ تعلق میں یہ سُکھ تو پایا ہم نے
اب تارے نہیں گِنتے اب جاگا نہیں کرتے

خُشک پتوں کی آواز پہ دروازے کی طرف
ننگے پاؤں میری جاں اب بھاگا نہیں کرتے.

محسنؔ نقوی

چلو ترکِ تعلق میں یہ سُکھ تو پایا ہم نے
اب تارے نہیں گِنتے اب جاگا نہیں کرتے

خُشک پتوں کی آواز پہ دروازے کی طرف
ننگے پاؤں میری جاں اب بھاگا نہیں کرتے.

محسنؔ نقوی

کہنے کو تو ملبوسِ بشر اوڑھ کے آیا
لیکن ترے احکام فلک پر بھی چلے ہیں
انگلی کا اشارہ تھا کہ تقدیر کی ضَربت
مہتاب کے ٹکڑے تری جھولی میں گِرے ہیں

محسن نقوی

کہنے کو تو ملبوسِ بشر اوڑھ کے آیا
لیکن ترے احکام فلک پر بھی چلے ہیں
انگلی کا اشارہ تھا کہ تقدیر کی ضَربت
مہتاب کے ٹکڑے تری جھولی میں گِرے ہیں

محسن نقوی

 

 

اشک آنکھوں میں چھپاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
بوجھ پانی کا اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

پاؤں رکھتے ہیں جو مجھ پر انہیں احساس نہیں
میں نشانات مٹاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

برف ایسی کہ پگھلتی نہیں پانی بن کر
پیاس ایسی کہ بجھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

اچھی لگتی نہیں اس درجہ شناسائی بھی
ہاتھ ہاتھوں سے ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

غمگساری بھی عجب کار محبت ہے کہ میں
رونے والوں کو ہنساتے ہوئے تھک جاتا ہوں

اتنی قبریں نہ بناؤ میرے اندر محسن
میں چراغوں کو جلاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

محسن نقوی

میں نے اس طور سے  تجھے چاہا جاناں ۔
جس طرح مہتاب کو بے انت سمندر چائیے۔
محسن نقوی ۔

میں نے اس طور سے تجھے چاہا جاناں ۔
جس طرح مہتاب کو بے انت سمندر چائیے۔
محسن نقوی ۔

 

 

اس کو فرصت ہی نہیں، وقت نکالے محسن
ایسے ہوتے ہیں بھلا چاہنے والے محسن

یاد کے دشت میں پھرتا ہوں میں ننگے پاؤں
دیکھ تو آ کے کبھی پاؤں کے چھالے محسن

کھو گئی صبح کی امید اور اب لگتا ہے
ہم نہیں ہوں گے کہ جب ہوں گے اجالے محسن

میں کہاں، حاکمِ وقت کہاں، عدل کہاں
کیوں نہ خلقت کی زبان پر لگائیں تالے محسن

وہ اک شخص متاع دل و جان تھا نہ رہا
اب بھلا کون میرے درد سنبھالے محسن….

محسن نقوی

 

کہاں گئے وہ شناسا وہ اجنبی چہرے 
اجاڑ سی نظر آتی ہے ہر گلی اب تو 

محسن نقوی

کہاں گئے وہ شناسا وہ اجنبی چہرے

اجاڑ سی نظر آتی ہے ہر گلی اب تو

محسن نقوی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *