“Discover the magic of Mirza Galib Urdu poetry—a blend of timeless wisdom and eloquence. Immerse yourself in the beauty of his verses, where passion and philosophy unite, creating a poetic journey that transcends boundaries.”
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
دل آشفتگاں خالِ کنجِ دہن کے
سویدا میں سیرِ عدم یکھتے ہیں
تیرے سرو قامت سے، اک قّدِ آدم
قیامت کے فتنے کو، کم دیکھتے ہیں
تماشا کہ اے محوِ آئینہ داری!
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
سُراغِ تَفِ نالہ لے، داغِ دل سے
کہ شب رو کا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس، غالبؔ!
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
مرزا غالب
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
ہر اک بات پہ کہتے ہو تم کے تو کیا ہے
تم ہی کہو کے یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
جلا ہے جسم دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو اب راکھ جستجو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جَیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے
ہوا ہے شہ کا بنا مصاحب پھرے ہیں اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
مرزا غالب
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیمان کا پشیمان ہونا 🌸🥀
مرزا غالب 🦋
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
میں انہیں چھیڑوں اور وہ کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیے ہوتے
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
کاش کے تم مرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یارب کئی دیے ہوتے
آ ہی جاتا وہ راہ پر غالبؔ
کوئی دن اور بھی جیے ہوتے
مرزا غالب
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
مرزا غالب
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطب
توبہ توبہ خدا خدا کیجے
رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہو گی
پہلے دل درد آشنا کیجے
عرضِ شوخی نشاطِ عالم ہے
حسن کو اور خود نما کیجے
دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا
اب حقِ دوستی ادا کیجے
موت آتی نہیں کہیں غالبؔ
کب تک افسوس زیست کا کیجے
مرزا غالب
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا