“Discover the magic of Allama Iqbal’s Urdu poetry—a blend of timeless wisdom and eloquence. Immerse yourself in the beauty of his verses, where passion and philosophy unite, creating a poetic journey that transcends boundaries.”
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشۂ چالاک
رکھتی ہے مگر طاقت پرواز مری خاک
یہ دیر کہن کیا ہے انبار خس و خاشا
مشکل ہے گزر اس میں بے نالۂ آتش ناک
جنہیں ارتفاع ء فلک تو نے سمجھا
نہیں ھیں سوا جلتے بجھتے شرارے
نو نومبر کو قدم رکھا تھا ارضپاک پر
نام تھا اقبال شھرت چھا گی افلاک پر
بندگی کے عوض فردوس ملے
یہ بات مجھے منظور نہیں
وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائں یہو
یہ کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگیز
اندیشۂ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز
ضمیر لالہ مۂ لعل سے ہوا لبریز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز
یہ پیران کلیسا و حرم اے وائے مجبوری
صلہ ان کی کد و کاوش کا ہے سینوں کی بے نوری
قلم اٹھتا ہے تو سوچیں بدل جاتی ہیں
اک شخص کی محنت سے ملتیں تشکیل پاتی ہیں
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالات کے بدلنے کا
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو ، وہ قیصری کیا ہے
فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام رنگ و بو کر
سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازۂ صحرا
ہر اک مقام سے آگے گزر گیا مہ نو
کمال کس کو میسر ہوا ہے بے تگ و دو
لکھی ہے جس فلک پہ تقدیر ء نؤ ھماری
آؤ نہ گھر بسائیں اسی آسماں پہ یارو
اقبال کے شاھین کی پرواز جہاں تک
کرگس کی کیا مجال کہ پہنچے گا وہاں تک
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد
تو ابھی رہ گزر میں ہے قید_مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں؟
ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک
اگرچہ مغربیوں کا جنوں بھی تھا چالاک
مٹا دی اپنی ھستی کو اگر کچھ مرتبہ چاھے
کے دانہ خاک میں ملکر گل و گلزار بنتا ھے
کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش
اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
متاع بے بہا ہے سوزودرد و آرزو مند
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی
مجھے آہ و فغان نیم شب کا پھر پیام آیا
تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا
اقبال تیری عظمت کی داستاں کیا سناؤں
تیری زندگی پھ لکھوں تو الفاظ نہ پاؤں
قافلہِ عشق و وفا کا سالار ہے اقبال
کتابِ خودی کا انوکھا کردار ہے اقبال
اقبال کےبارے میں کیا کہیں ہم لوگ
شاعری انکی ادب پر کر رہی ہے راج
ہنسی آتی ہے مجھے حسرت انسان پر
گناھ کرتا ھے خود ، لعنت بھیجتا ھے شیطان پر
پیاسے سکونِ قلب کو میخانے نہ آئیں؟
ھو حسن بےمثال اور دیوانے نہ آئیں؟