Here Mentioned Some Heart Touching Ghazals in Urdu
بس یہی سوچ کہ پہروں نہ رہا ہوش مجھے
کر دیا ہو نہ کہیں تو نے فراموش مجھے
تیری آنکھوں کا ہی میخانہ سلامت ساقی
مست رکھتا ہے ترا بادہ سرجوش مجھے
کب کا رسوا میرے اعمال مجھے کر دیتے
میری قسمت کہ ملا تجھ سا خطا پوش مجھے
ہچکیاں موت ک ی آنے لگیں اب تو آ جا
اور کچھ دیر میں شاید نہ رہے ہوش مجھے
پیر سید نصیر الدین نصیر رح ❤️
میرے الفاظ کہاں، مدحتِ سرکارؐ کہاں
یا نبیؐ آپ کے لائق مِری گُفتار کہاں
آپؐ کے مدح سرا عرشِ بریں کے مَلَکُوت
آپؐ کی شان کے شایاں مِرے اشعار کہاں
کس سے دوں آپؐ کو تشبیہ اے جمالِ یزداںؐ
يوسُفِ مصرؑ کہاں، احمدِ مختارؐ کہاں
کہاں اعجاز مسیحاؑ کا، عصا موسیٰؑ کا
آپؐ کا معجزۂِ حیدرِ کرّارؐ کہاں
بادشاہی تِرے سلمانؑ و ابوذرؑ کی کنیز
قیصر و کسریٰ کہاں، تیرے طلبگار کہاں
درمیاں عابِد و معبود کے ہے آپؐ کی ذات
ورنہ ممکن تھا خداوند کا دیدار کہاں
رب کا وعدہ ہے کہ غالِب رہے گا آپ کا دین
لشکرِ کُفر کہاں، مہدئِ جرّارؐ کہاں
سیّدہؐ کے درِ اطہر کی غلامی کی قسم
ہم فقیروں کو بہشتوں سے سروکار کہاں
آپؐ کی چشمِ عنایت کا کرم ہے ورنہ
یہ گنہگار کہاں، آپ کا دربار کہاں
ثائر الحسینی
وہ آ تو جائے مگر انتظار ہی کم ہے
وہ بے وفا تو نہیں ،میرا پیار ہی کم ہے
میں کیسے مان لوں اس پر کوئی اثر ہی نہ ہو
یہ دل تڑپتا رہے اور اسے خبر ہی نہ ہو
یہ دل خدا کی قسم، بے قرار ہی کم ہے
وہ آ تو جائے مگر انتظار ہی کم ہے
زمانہ کہتا ہے وہ میرا ساتھ چھوڑ گیا
وہ مجھ کو بھول گیا، میرے دل کو توڑ گیا
وہ آ تو جائے مگر انتظار ہی کم ہے
کمی رہی ہے مرے پیار میں کہیں نہ کہیں
کہ آنسؤوں میں ابھی خون دل کا رنگ نہیں
ابھی تو آنکھ مری اشک بار ہی کم ہے
وہ آ تو جائے مگر انتظار ہی کم ہے
تسلیم فاضلی
دلِ سکوت زدہ میں بھی آؤ ، آ کے ہنسو
خزاں کے قریۂ وحشت میں گُل کھلا کے ہنسو
تمہارے ساتھ بہت خواب دیکھ رکھے تھے
حماقتوں پہ ہنسو دوست ، کھلکھلا کے ہنسو
طلب کے واسطے لہجے کی کرچیاں جوڑو
اور ایک ٹوٹے یقیں کو گماں میں لا کے ہنسو
مگر یہ گردشِ تقدیر بھی تو ہے کوئی شے
ابھی تو مجھ کو رلاؤ ، رلا رلا کے ہنسو
مذاق ہو گیا ، انجامِ کار دیکھ کے بھی
خلاف اٹھ گئی خلقِ خدا خدا کے ، ہنسو
خدا کے نائبو ! تم ہی تو سب سے افضل ہو
سو خوں بہا کے ہنسو ، جانور لڑا کے ہنسو
جنوں پہ ہنستے تھے یہ لوگ بھی تمہاری طرح
جو ٹوک ٹوک کے کہتے ہیں بچ بچا کے ہنسو
زبیرحمزہ
محسن نقوی
بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
صحرا مرا چہرا ہے سمندر تری آنکھیں
پھر کون بھلا داد تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں
خالی جو ہوئی شام غریباں کی ہتھیلی
کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوہر تیری آنکھیں
بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
کھلتی ہیں بہت دل میں اتر کر تری آنکھیں
اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں
ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تری آنکھیں
میں سنگ صفت ایک ہی رستے میں کھڑا ہوں
شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تری آنکھیں
یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسنؔ
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں
محسن نقوی
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر
اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے
وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسنؔ
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر
محسن نقوی
میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا
یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو
میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا
ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں
ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا
وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے
پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا دوں گا
اسی خیال میں گزری ہے شام درد اکثر
کہ درد حد سے بڑھے گا تو مسکرا دوں گا
تو آسمان کی صورت ہے گر پڑے گا کبھی
زمیں ہوں میں بھی مگر تجھ کو آسرا دوں گا
بڑھا رہی ہیں مرے دکھ نشانیاں تیری
میں تیرے خط تری تصویر تک جلا دوں گا
بہت دنوں سے مرا دل اداس ہے محسنؔ
اس آئنے کو کوئی عکس اب نیا دوں گا
محسن نقوی
ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی
اس رات دیر تک وہ رہا محو گفتگو
مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی
مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص
حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی
سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی
وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی
محسنؔ میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل
درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی
تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید
سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی
محسن زیدی
ٹھہرے ہوئے نہ بہتے ہوئے پانیوں میں ہوں
یہ میں کہاں ہوں کیسی پریشانیوں میں ہوں
اک پل کو بھی سکون سے جینا محال ہے
کن دشمنان جاں کی نگہبانیوں میں ہوں
یوں جل کے راکھ خواب کے پیکر ہوئے کہ بس
اک آئینہ بنا ہوا حیرانیوں میں ہوں
جب راہ سہل تھی تو بڑی مشکلوں میں تھا
اب راہ ہے کٹھن تو کچھ آسانیوں میں ہوں
آساں نہیں ہے اتنا کہ بک جاؤں اس کے ہاتھ
ارزاں نہیں ہوں خواہ فراوانیوں میں ہوں
مجھ کو بھی علم خوب ہے سب مد و جزر کا
میں بھی تو سب کے ساتھ انہیں پانیوں میں ہوں
محسنؔ تمام تر سر و ساماں کے باوجود
پوچھو نہ کتنی بے سر و سامانیوں میں ہوں
محسن زیدی
اک آس تو ہے کوئی سہارا نہیں تو کیا
رستے میں کچھ شجر تو ہیں سایہ نہیں تو کیا
رہتا ہے کوئی شخص مرے دل کے آس پاس
میں نے اسے قریب سے دیکھا نہیں تو کیا
تو ہی بتا کہ چاہیں تجھے اور کس طرح
یہ تیری جستجو یہ تمنا نہیں تو کیا
ہم دور دور رہ کے بھی چلتے رہے ہیں ساتھ
ہم نے قدم قدم سے ملایا نہیں تو کیا
ریگ رواں کی طرح ہیں سارے تعلقات
تم نے کسی کا ساتھ نبھایا نہیں تو کیا
ویسے ہمیں تو پیاس میں دریا کی تھی تلاش
اب یہ سراب ہی سہی دریا نہیں تو کیا
سوچا بھی تم نے دشت چمن کیسے بن گیا
محنت کا یہ عرق یہ پسینا نہیں تو کیا
محسنؔ مری نگاہ کو اچھا لگا وہی
دنیا کی وہ نظر میں جو اچھا نہیں تو کیا
محسن زیدی
کوئی بے وجہ کیوں خفا ہوگا
کچھ تو اس کو برا لگا ہوگا
آگے جا کر ٹھہر گیا ہوگا
وہ مری راہ تک رہا ہوگا
چھوڑ آئے تھے ہم جلا کے جسے
وہ دیا کب کا بجھ گیا ہوگا
کیسے معلوم ہو کہ آخر وقت
اس نے کیا کچھ کہا سنا ہوگا
جب وہ آواز تھم گئی ہوگی
شب کا سناٹا بولتا ہوگا
کیوں ہوا تیز ابھی سے چلنے لگی
غنچہ کم کم ابھی کھلا ہوگا
لہجہ اس کا بھی کچھ تھا اپنا سا
وہ بھی اپنے دیار کا ہوگا
پہلا سجدہ جہاں کیا تھا وہیں
آخری سجدہ بھی ادا ہوگا
ہو نہ ہو منزل آ گئی محسنؔ
چند قوموں کا فاصلا ہوگا
محسن زیدی
ہمیں تو خیر کوئی دوسرا اچھا نہیں لگتا
انہیں خود بھی کوئی اپنے سوا اچھا نہیں لگتا
نہیں گر نغمۂ شادی نفیر غم سہی کوئی
کہ ساز زندگانی بے صدا اچھا نہیں لگتا
ہمیں یہ بند کمروں کا مکاں کچھ بھا گیا اتنا
کہ ہم کو اب کوئی آنگن کھلا اچھا نہیں لگتا
کچھ اتنی تلخ اس دن ہو گئی تھی گفتگو ان سے
کئی دن سے زباں کا ذائقہ اچھا نہیں لگتا
کبھی نزدیک آ کر روبرو بھی ہوں ملاقاتیں
کہ ہم سایوں میں اتنا فاصلہ اچھا نہیں لگتا
کٹھن رستوں پہ چلنا اپنی افتاد طبیعت ہے
ہمیں آسان کوئی راستا اچھا نہیں لگتا
اسے ہم مرثیہ گویوں پہ محسنؔ چھوڑ دیتے ہیں
لکھیں ہم آپ اپنا مرثیہ اچھا نہیں لگتا
محسن اسرار
مرے بارے میں کچھ سوچو مجھے نیند آ رہی ہے
مجھے ضائع نہ ہونے دو مجھے نیند آ رہی ہے
مرے اندر کے دکھ چہرے سے ظاہر ہو رہے ہیں
مری تصویر مت کھینچو مجھے نیند آ رہی ہے
تو کیا سارے گلے شکوے ابھی کر لو گے مجھ سے
کچھ اب کل کے لیے رکھو مجھے نیند آ رہی ہے
سحر ہوگی تو دیکھیں گے کہ ہیں کیا کیا مسائل
ذرا سی دیر سونے دو مجھے نیند آ رہی ہے
تمہارا کام ہے ساری حسیں بے دار رکھنا
مرے شانے پہ سر رکھو مجھے نیند آ رہی ہے
بہت کچھ تم سے کہنا تھا مگر میں کہہ نہ پایا
لو میری ڈائری رکھ لو مجھے نیند آ رہی ہے
محسن اسرار
اچھا ہے وہ بیمار جو اچھا نہیں ہوتا
جب تجربے ہوتے ہیں تو دھوکا نہیں ہوتا
جس لفظ کو میں توڑ کے خود ٹوٹ گیا ہوں
کہتا بھی تو وہ اس کو گوارا نہیں ہوتا
تیری ہی طرح آتا ہے آنکھوں میں ترا خواب
سچا نہیں ہوتا کبھی جھوٹا نہیں ہوتا
تکذیب جنوں کے لیے اک شک ہی بہت ہے
بارش کا سمے ہو تو ستارا نہیں ہوتا
کیا کیا در و دیوار مری خاک میں گم ہیں
پر اس کو مرا جسم گوارا نہیں ہوتا
یا دل نہیں ہوتا مرے ہونے کے سبب سے
یا دل کے سبب سے مرا ہونا نہیں ہوتا
کس رخ سے تیقن کو طبیعت میں جگہ دیں
ایسا نہیں ہوتا کبھی ویسا نہیں ہوتا
ہم لوگ جو کرتے ہیں وہ ہوتا ہی نہیں ہے
ہونا جو نظر آتا ہے ہونا نہیں ہوتا
جب ہم نہیں ہوتے یہاں آتے ہیں تغیر
جب ہم یہاں ہوتے ہیں زمانا نہیں ہوتا
جس دن کے گزرتے ہی یہاں رات ہوئی ہے
اے کاش وہ دن میں نے گزارا نہیں ہوتا
ہم ان میں ہیں جن کی کوئی ہستی نہیں ہوتی
ہم ٹوٹ بھی جائیں تو تماشا نہیں ہوتا
محسن اسرار
مجھے ملال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
مگر یہ حال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
میں ٹوٹتا بھی ہوں اور خود ہی جڑ بھی جاتا ہوں
کہ یہ کمال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
پکارتا بھی وہی ہے مجھے سفر کے لیے
سفر محال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
جواب دیتا ہے میرے ہر اک سوال کا وہ
مگر سوال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
وہ میرے حال سے مجھ کو ہی بے خبر کر دے
یہ احتمال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
میں اس کے ہجر میں کیوں ٹوٹ کر نہیں رویا
یہ اک سوال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
جب آگہی مجھے گمراہ کرتی ہے محسنؔ
جنوں بحال بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے
محسن اسرار
مٹی ہو کر عشق کیا ہے اک دریا کی روانی سے
دیوار و در مانگ رہا ہوں میں بھی بہتے پانی سے
بے خبری میں ہونٹ دیے کی لو کو چومنے والے تھے
وہ تو اچانک پھوٹ پڑی تھی خوشبو رات کی رانی سے
وہ مجبوری موت ہے جس میں کاسے کو بنیاد ملے
پیاس کی شدت جب بڑھتی ہے ڈر لگتا ہے پانی سے
دنیا والوں کے منصوبے میری سمجھ میں آئے نہیں
زندہ رہنا سیکھ رہا ہوں اب گھر کی ویرانی سے
جیسے تیرے دروازے تک دستک دینے پہنچے تھے
اپنے گھر بھی لوٹ کے آتے ہم اتنی آسانی سے
ہم کو سب معلوم ہے محسنؔ حال پس گرداب ہے کیا
آنکھ نے سچے گر سیکھے ہیں سورج کی دربانی سے
محسن زیدی
کل رات وہ جھگڑتی رہی بات بات پر
اور میں کتاب لکھتا رہا کائنات پر
کیا سوچیے کہ سوچ سے آگے ہے زندگی
پہرے لگا رکھے ہیں کسی نے حیات پر
کیا داستاں سنائیے اس کے وصال کی
کیا تبصرہ کرے کوئی صحرا کی رات پر
شاید مری انا مرے لہجے پہ ہے محیط
شک ہو رہا ہے اس کو مرے التفات پر
تیرے بغیر لگتا ہے گویا یہ زندگی
تنقید کر رہی ہے مری خواہشات پر
پھر اس نے مری خو میں مجھے قید کر دیا
اک خواب سا لپیٹ دیا میری ذات پر
عدنان محسن
اسم بن کر ترے ہونٹوں سے پھسلتا ہوا میں
برف زاروں میں اتر آیا ہوں جلتا ہوا میں
اس نے پیمانے کو آنکھوں کے برابر رکھا
اس کو اچھا نہیں لگتا تھا سنبھلتا ہوا میں
رات کے پچھلے پہر چاند سے کچھ کم تو نہ تھا
دن کی صورت تری بانہوں سے نکلتا ہوا میں
تیرے پہلو میں ذرا دیر کو سستا لوں گا
تجھ تک آ پہنچا اگر نیند میں چلتا ہوا میں
میری رگ رگ میں لہو بن کے مچلتی ہوئی تو
تیری سانسوں کی حرارت سے پگھلتا ہوا میں
وہ کبھی دھوپ نظر آئے کبھی دھند لگے
دیکھتا ہوں اسے ہر رنگ بدلتا ہوا میں
عدنان محسن
کبھی تو خواب کبھی رت جگے سے باتیں کیں
ترے گمان میں ہم نے دیے سے باتیں کیں
ردائے شب پہ نئے طرز سے وصال لکھا
بچھڑنے والوں نے اک دوسرے سے باتیں کیں
رہی نہ یاروں سے امید غم گساری کی
گھر آئے گریہ کیا آئنے سے باتیں کیں
عجب مذاق ہے ہم نے خدا کے دھوکے میں
تمام عمر کسی وسوسے سے باتیں کیں
جناب شیخ سے اک بار سامنا ہو جائے
کرے گا یاد کسی سرپھرے سے باتیں کیں
بہت ادق تھیں عبارات زندگانی کی
ذرا سی دیر رکے حاشیے سے باتیں کیں
ہمارے ہونٹوں پہ پر لطف قہقہے بکھرے
ہماری آنکھوں نے کتنے مزے سے باتیں کیں
چلے تو چلتے گئے ہاتھ تھام کر چپ چاپ
جدا ہوئے تو بہت راستے سے باتیں کیں
عدنان محسن
میرے خوش رہنے سے اس کو کچھ پریشانی نہ تھی
اس کو زندہ دیکھ کر مجھ کو بھی حیرانی نہ تھی
دو تھکے ہارے دلوں نے اک ندی پر رات کی
تھی مگر جذبوں میں وہ پہلی سی طغیانی نہ تھی
رک گیا تھا وہ مرے حجرے میں جانے کس لیے
آسماں شفاف تھا اور رات طوفانی نہ تھی
تیغ زن کو وار سے پہچان لیتا تھا ہدف
لفظ کی ایجاد سے پہلے رجز خوانی نہ تھی
رفتہ رفتہ قہقہوں کے رنگ پھیکے پڑ گئے
ہونٹ تھے سرسبز لیکن وہ ہنسی دھانی نہ تھی
ایک سے دیوار و در کو دیکھنا تھا عمر بھر
اپنی آنکھوں کے مقدر میں جہاں بانی نہ تھی
وقت مہنگا ہو رہا تھا لفظ بھی کم یاب تھے
شاعروں کو خواب بننے میں بھی آسانی نہ تھی
عدنان محسن
تازہ پھول سجائیں کیوں ہم کمرے کے گل دانوں میں
تیری خوشبو شامل ہے روزانہ کے مہمانوں میں
کیسی کیسی بستی اجڑی اہل خرد کے ہاتھوں سے
دیوانوں نے شہر بسائے جا کر ریگستانوں میں
اپنے آنسو دفن ہوئے ہیں آنکھ کی گیلی قبروں میں
اپنی چیخیں قید رہی ہیں ذہنوں کے زندانوں میں
اس کے روپ کی دھوپ کا سایہ چھاؤں بچھاتے پیڑوں پر
اس کی شوخ ہنسی کا چرچا شہر کے قہوہ خانوں میں
دھند تو پونچھی بھی جا سکتی ہے چشمے کے شیشوں سے
وقت کی راکھ پڑی رہتی ہے ٹھنڈے آتش دانوں میں
پیروں سے ٹکراتے ہیں جب جھونکے سرد ہواؤں کے
ہاتھ لرزنے لگ جاتے ہیں چمڑے کے دستانوں میں
تنہائی کا بھاری پتھر ایک ذرا سا سرکا ہے
کڑیوں کی آواز پڑی ہے اک قیدی کے کانوں میں
سوچو تو ذرا کاتب ۔۔۔ تقدیر سے آگے
نکلو تو صحیح زلف گیرہ گیر سے آگے
زنجیر کو توڑو تو نظر آئے گا تم کو
اک اور بھی زنجیر ہے زنجیر سے آگے
تصویر کے اک رخ کے سوا اور بھی رخ ہیں
دیکھا کرو تصویر کو تصویر سے آگے
یہ لوگ فقط خون خرابے میں لگے ہیں
اقلیم محبت بھی ہے شمشیر سے آگے
محسوس کروگے تو سمجھ جاوگے اک دن
کوئی بھی نہیں یحییٰ دلگیر سے آگے
کلام :یحییٰ خان