قطع ہوتی جا رہی ہیں زندگی کی منزلیں🖤🥀 ہر نفس اپنی جگہ چلتی ہوئی تلوار ہے🤍

اے آر ساحل علیگ

وصل کا موسم ہو تو یہ سردیاں ہی ٹھیک ہیں
ہجر میں قربت کی یہ پرچھائیاں ہی ٹھیک ہیں

کیا بتاؤں میں کہ تم نے کس کو سونپی ہے حیا
اس لئے سوچا مری خاموشیاں ہی ٹھیک ہیں

عشق سے بیزار دل یہ چیخ کر کہنے لگا
عشق چھوڑو عاشقوں تنہائیاں ہی ٹھیک ہیں

اس قدر ہم ہو چکے رسوا وفا کے نام پر
اب شرافت چھوڑ دی بد نامیاں ہی ٹھیک ہیں

آپ نے چاہا جدائی سو الگ ہم ہو گئے
کیا کہیں اب آپ کی یہ مرضیاں ہی ٹھیک ہیں

ہو نہ پائے جب مکمل عشق کا قصہ تو پھر
شہرتیں رہنے دو اب گمنامیاں ہی ٹھیک ہیں

اس سے پہلے ہم جدا ہوں کچھ بھرم باقی رہے
درمیاں اب تلخ سی یہ دوریاں ہی ٹھیک ہیں

بجھ چکا جو کیوں وہ سلگاؤں محبت کا الاؤ
اب تلک جھیلی جفا کی سختیاں ہی ٹھیک ہیں

ہے فسانہ عشق کا ڈوبا ہے ساحل اشک میں
میرے مضموں کا یہ عنواں تلخیاں ہی ٹھیک ہیں

 

 

 

اے آر ساحل علیگ

اشکوں سے اپنی آنکھیں بھگوتا رہا غزال
بیٹھا ندی کے تیر پہ روتا رہا غزال

افسوس یہ ہے اس کو غزالہ نہ مل سکی
خود کو غموں میں خوب ڈبوتا رہا غزال

صحرا نوردیوں اسے راس آئی اس قدر
شانوں پہ خاک عشق بھی ڈھوتا رہا غزال

وحشت کا احترام جنوں میں کیا بہ چشم
ماضی کے خار دل میں چبھوتا رہا غزال

رنج و سرور و کیف جوانی کے چار دن
کیا کیا تمہارے عشق میں کھوتا رہا غزال

آنکھوں میں لال ڈورے سے پڑتے چلے گئے
آنسو یہ کس ہنر سے پروتا رہا غزال

ساحل تمام روز غموں کے عذاب میں
بے خوف جسم و جان سے ہوتا رہا غزال

 

 

 

اے آر ساحل علیگ

یوں تو ہونے کو کیا نہیں ہوتا
آدمی بس خدا نہیں ہوتا

درد دل ٹوٹنے کا جان من
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

فاعلاتن فعلاتن فعلن
اس سے مصرع روا نہیں ہوتا

پینے پڑتے ہیں سینکڑوں آنسو
درد خود تو دوا نہیں ہوتا

جو بھی انساں ہے یار انساں ہے
کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا

ویسے رشتہ بہت سے ہیں ساحلؔ
درد سا اک سگا نہیں ہوتا

 

 

 

اے آر ساحل علیگ

شام کے تن پر سجی جو سرمئی پوشاک ہے
ہم چراغوں کی فقط یہ روشنی پوشاک ہے

چاند پیشانی کا ٹیکا چاندنی پوشاک ہے
رات نے پہنی ہے جو وہ ساحری پوشاک ہے

خاک کا یہ جسم ہے اور خاک ہی پوشاک ہے
زندگی کی یہ نہیں یہ روح کی پوشاک ہے

اس کو جنت میں قدم رکھنے پے ہے پابندیاں
جس کسی بد ذہن کی بھی کافری پوشاک ہے

ہر گلی نکڑ نگر اب بن چکا مقتل یہاں
بے گناہوں کی لہو تر چیختی پوشاک ہے

سب کی تقریروں میں ویسے ہے خدا سب کا ہی اک
ہاں مگر ہر دل کی اپنی مذہبی پوشاک ہے

اس غزل کے حرف ساحلؔ مسکرائے کس قدر
مدتوں سے جس نے پہنی ماتمی پوشاک ہے

 

 

 

اے آر ساحل علیگ

وقت کے ساتھ ساتھ چلنا تھا
خود کو تھوڑا بہت بدلنا تھا

اس میں غلطی گھڑی کی تھوڑی ہے
وقت تھا وقت پر نکلنا تھا

اس کی فطرت پہ طنز مت کیجئے
رنگ گرگٹ کو تو بدلنا تھا

سب پھسلتے ہیں اس جوانی میں
کہنے والے تجھے سنبھلنا تھا

ترک الفت کی کیا ضرورت تھی
گر تمہیں ذائقہ بدلنا تھا

 

 

 

اے آر ساحل علیگ

حسن در حسن پھر آزمانے کے بعد
خون رونا پڑا دل لگانے کے بعد

ان رقیبوں میں فوٹو کھنچانے کے بعد
کیا ملے گا تمہیں جی جلانے کے بعد

اس قدر مجھ پہ مرتی ہے پگلی کوئی
رونے لگتی ہے ڈی پی ہٹانے کے بعد

وہ پتنگ تھی کٹی اور چلی بھی گئی
ہاتھ دھاگا بچا بس اڑانے کے بعد

عشق تو دوریوں میں بھی مٹتا نہیں
روٹھتی ہے ہوس دور جانے کے بعد

لگ کے بہتی تھی ساحلؔ سے کل جو ندی
کٹ گئی مجھ سے ساگر میں جانے کے بعد

 

 

 

اے آر ساحل علیگ

سیاسی نفرتوں کی زد میں آئیں گے ہمیں کب تک
بھگو کر شاہ رکھے گا لہو میں آستیں کب تک

کئی کنکر وفا کی جھیل میں میں پھینک آیا ہوں
ابھر کر سطح پہ آئیں گے دیکھیں تہ نشیں کب تک

بھرم کے پاؤں کی زنجیر کو سچ توڑ ہی دے گا
کسی کے جھوٹ پر کوئی کرے گا بھی یقیں کب تک

رکھے گا وقت ان کے روبرو بھی آئنہ اک دن
جہاں کے عیب ہی دیکھا کریں گے نکتہ چیں کب تک

نگاہوں سے ہی وہ ہر شخص کو کافر بنا دے گا
بچے گی یہ ہوس کے سائے سے روئے زمیں کب تک

نہ جانے کب رہا اس قید سے ہم ہوں گے اے ساحلؔ
ستائیں گے ہماری زیست کو یہ کفر و دیں کب تک

 

 

 

اے آر ساحل علیگ

ڈھلی جو رات بہت دیر مسکرائی صبا
فضا کو دے کے گئی آج پھر بدھائی صبا

بھلے ہی آج چمن کو تو راس آئی صبا
گلوں کے لب پہ مگر ہے تری برائی صبا

اٹھا کے ہاتھ دعا مانگنے لگے ہیں چراغ
تو کر رہی ہے بھلا کیسی رہنمائی صبا

چڑھی جو دھوپ تو دامن جھٹک دیا اس نے
افق سے کرنے لگی کھل کے بے وفائی صبا

مہک اٹھی ہے تمنا بھی زخم کھانے کی
کٹار ہاتھ میں لے کر گلی میں آئی صبا

غبار ذہن جگر میں اٹھا دیا غم کا
ستم کے شہر سے سیدھے ہی دل میں آئی صبا

عجیب ڈھنگ کی مستی ہے ان پہاڑوں کی
بدن پر اوڑھ لی ہنس کر کبھی بچھائی صبا

گلاب خواب ستارے دھنک اداس چراغ
پڑی ہے فصل محبت کٹی کٹائی صبا

نہ جانے کس کے اشارے پہ رات دن ساحلؔ
سنا رہی ہے کہانی سنی سنائی صبا

 

 

 

اے آر ساحل علیگ

لبوں پہ مسکان دل میں دہشت عجیب خلقت مری غزالہ
خطا پہ اپنے نہیں کرے ہے کبھی ندامت مری غزالہ

سو جیسا چاہا بنایا رب نے بدن کا خاکہ یہ اس کی مرضی
ہر ایک ڈھب میں ہیں اپنے اپنے کساؤ کثرت مری غزالہ

قرار دے دے مجھے تو کافر نہ چھوٹ پائے گی یہ عبادت
رہے گی قدموں میں صرف تیرے یہ میری جنت مری غزالہ

نہیں ہے ممکن کہ کٹ سکے یہ خدا کا لکھا یہ سوچتا ہوں
وہ مل کہے مجھ سے کچھ تو میری بدل دے قسمت مری غزالہ

انا سے مانگوں جہاں سے مانگوں میں تجھ کو کس کس خدا سے مانگوں
بنی ہے میرے ہی جان و جی کی تو سخت آفت مری غزالہ

میں چاہتا ہوں بنا لے ساحلؔ مجھے تو اپنی ہی زندگی کا
نہیں ہے مجھ کو زمانے بھر سے کوئی بھی حاجت مری غزالہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *