ghazal in urdu

جہاں وہ زلف برہم کارگر محسوس ہوتی ہے
وہاں ڈھلتی ہوئی ہر دوپہر محسوس ہوتی ہے

جتن بھی کیا حسیں سوجھا ہے تجھ کو پیار کرنے کا
تری صورت مجھے اپنی نظر محسوس ہوتی ہے

وہی شے مقصد‌ قلب و نظر محسوس ہوتی ہے
کمی جس کی برابر عمر بھر محسوس ہوتی ہے

گلی کوچوں میں صحن میکدہ کا رنگ ہوتا ہے
مجھے دنیا ترا کیف نظر محسوس ہوتی ہے

یہ دو پتھر نہ جانے کب سے آپس میں ہیں وابستہ
جبیں اپنی تمہارا سنگ در محسوس ہوتی ہے

ذرا آگے چلو گے تو اضافہ علم میں ہوگا
محبت پہلے پہلے بے ضرر محسوس ہوتی ہے

کبھی سچ تو نہیں اس آنکھ نے بولا مگر پھر بھی
رویے میں نہایت معتبر محسوس ہوتی ہے

عدم اب دوستوں کی بے رخی کی ہے یہ کیفیت
کھٹکتی تو نہیں اتنی مگر محسوس ہوتی ہے

عبد الحمید عدم

 

 

 

دل ڈوب نہ جائیں پیاسوں کے تکلیف ذرا فرما دینا
اے دوست کسی مے خانے سے کچھ زیست کا پانی لا دینا

طوفان حوادث سے پیارے کیوں اتنا پریشاں ہوتا ہے
آثار اگر اچھے نہ ہوئے اک ساغر مے چھلکا دینا

ظلمات کے جھرمٹ ویسے تو بجلی کی چمک سے ڈرتے ہیں
پر بات اگر کچھ بڑھ جائے تاروں سے سبو ٹکرا دینا

ہم حشر میں آتے تو ان کی تشہیر کا باعث ہو جاتے
تشہیر سے بچنے والوں کو یہ بات ذرا سمجھا دینا

میں پیرہن ہستی میں بہت عریاں سا دکھائی دیتا ہوں
اے موت مری عریانی کو ملبوس عدمؔ پہنا دینا

عبد الحمید عدم

 

 

 

‏یا مجھے افسرِ شاہانہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا

اپنا دیوانہ بنایا مجھے ہوتا تُو نے
کیوں خرد مند بنایا، نہ بنایا ہوتا

خاکساری کے لئے گرچہ بنایا تھا مجھے
کاش خاکِ درِ جانانہ بنایا ہوتا

تشنہء عشق کا گر ظرف دیا تھا مجھ کو
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا

دلِ صد چاک بنایا تو بلا سے لیکن
زلفِ مشکیں کا تیرے شانہ بنایا ہوتا

تھا جلانا ہی اگر دوریء ساقی سے مجھے
تو چراغِ در میخانہ بنایا ہوتا

شعلہء حسن چمن میں نہ دکھایا اس نے
ورنہ بلبل کو بھی پروانہ بنایا ہوتا

روز معمورہء دنیا میں خرابی ہے ظفر
ایسی بستی کو تو ویرانہ بنایا ہوتا

بہادر شاہ ظفر

 

 

 

وہ جسے دیدہ وری کہتے ہیں
ہم اسے بے بصری کہتے ہیں

نام اس کا ہے اگر با خبری
پھر کسے بے خبری کہتے ہیں

یہ اگر لطف و کرم ہے تو کسے
جور و بے دادگری کہتے ہیں

کیا اسی کار‌ نظر بندی کو
حسن کی جلوہ گری کہتے ہیں

گل کے اوراق پہ کانٹوں کا گماں
کیا اسے خوش نظری کہتے ہیں

بہر بیمار دوا ہے نہ دعا
کیا اسے چارہ گری کہتے ہیں

کم کسی کو یہ خبر ہے کہ کسے
رنج بے بال و پری کہتے ہیں

یاس و حرماں کو بہ الفاظ دگر
آہ کی بے اثری کہتے ہیں

نام ہے وہ بھی جگر داری کا
ہم جسے بے جگری کہتے ہیں

آپ خود بھی تو گل انداموں کو
حور کہتے ہیں پری کہتے ہیں

فصل گل ہی تو ہے وہ ہم جس کو
موسم جامہ دری کہتے ہیں

عشق میں عین ہنر مندی ہے
سب جسے بے ہنری کہتے ہیں

مفت کی درد سری کو ہم بھی
مفت کی درد سری کہتے ہیں

آپ سے ہم سے بنی ہے نہ بنے
آپ خشکی کو تری کہتے ہیں

کیا کوئی بات کبھی اہل جنوں
از رہ ناموری کہتے ہیں

ہم پہ یہ بھی ہے اک الزام کہ ہم
داستاں درد بھری کہتے ہیں

کوئی خوش ہو کہ خفا ہو حیرتؔ
ہم تو ہر بات کھری کہتے ہیں

عبدالمجید حیرت

 

 

 

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں

طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں

دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن
نہ تری حکایت سوز میں نہ مری حدیث گداز میں

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں

میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں….

علامہ محمد اقبالؒ

 

 

 

کس نے ان کا شباب دیکھا ہے
جس نے دیکھا ہے خواب دیکھا ہے

آسماں پر ابھی تو دنیا نے
ایک ہی آفتاب دیکھا ہے

دیکھنے کو تو حسن ہم نے بھی
اک سے اک انتخاب دیکھا ہے

چند ذی قلب تھے جنہیں ہم نے
صرف صد اضطراب دیکھا ہے

سننے والے بھی جس کو سن نہ سکیں
ہم نے وہ انقلاب دیکھا ہے

جب سے بدلی ہے وہ نگاہ کرم
ہر نظر میں عتاب دیکھا ہے

ایک دنیا کو ہم نے اپنے خلاف
برسر احتساب دیکھا ہے

پھر جواب الجواب دے نہ سکا
جس نے ان کا جواب دیکھا ہے

اس طرف ان کا التفات تو کیا
ہاں مگر اجتناب دیکھا ہے

ہم نے اپنا تو جذب دل حیرتؔ
شاذ ہی کامیاب دیکھا ہے

ہم نے دل دادگان الفت کا
حال اکثر خراب دیکھا ہے

عبدالمجید حیرت

 

 

 

وہ دل کہاں سے لاؤں تیری یاد جو بُھلا دے
مجھے یاد آنے والے کوئی راستہ بتا دے

رہنے دے مجھ کو اپنے قدموں کی خاک بن کر
جو نہیں تُجھے گوارا مجھے خاک میں ملا دے

میرے دل نے تُجھ کو چاہا کیا یہی میری خطا ہے
مانا خطا ہے لیکن ایسی تو نہ سزا دے

مجھے تیری بےرُخی کا کوئی شکوہ نہ گِلہ ہے
لیکن میری وفا کا مجھے کچھ تو اب صِلہ دے

وہ دل کہاں سے لاؤں تیری یاد جو بُھلا دے
مجھے یاد آنے والے کوئی راستہ بتا دے —
شاعر راجندر کرشن

 

 

 

یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے
جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے

ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا
ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے

یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں
کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے

جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں
سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے

وفا کی آنچ سخن کا تپاک دو ان کو
دلوں کے چاک رفو سے سلا نہیں کرتے

ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی
مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے

جو ہم پہ گزری ہے جاناں وہ تم پہ بھی گزرے
جو دل بھی چاہے تو ایسی دعا نہیں کرتے

ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے
تمام غنچے تو امجدؔ کھلا نہیں کرتے

امجد اسلام امجد

 

 

 

چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن

رازوں کی طرح اترو مرے دل میں کسی شب
دستک پہ مرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن

پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہا لوں
بادل کی طرح جھوم کے گھر آؤ کسی دن

خوشبو کی طرح گزرو مری دل کی گلی سے
پھولوں کی طرح مجھ پہ بکھر جاؤ کسی دن

گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے
اس طرح مری رات کو چمکاؤ کسی دن

میں اپنی ہر اک سانس اسی رات کو دے دوں
سر رکھ کے مرے سینے پہ سو جاؤ کسی دن

امجد اسلام امجد

 

 

 

بارش کی رت تھی رات تھی پہلوئے یار تھا
یہ بھی طلسم گردش لیل و نہار تھا

کہتے ہیں لوگ اوج پہ تھا موسم بہار
دل کہہ رہا ہے عربدۂ زلف یار تھا

اب تو وصال یار سے بہتر ہے یاد یار
میں بھی کبھی فریب نظر کا شکار تھا

تو میری زندگی سے بھی کترا کے چل دیا
تجھ کو تو میری موت پہ بھی اختیار تھا

او گانے والے ٹوٹتے تاروں کے ساز پر
میں بھی شہید طول شب انتظار تھا

پلکیں اٹھیں جھپک کے گریں پھر نہ اٹھ سکیں
یہ اعتبار ہے تو کہاں اعتبار تھا

یزداں سے بھی الجھ ہی پڑا تھا ترا ندیمؔ
یعنی ازل سے دل میں یہی خلفشار تھا

احمد ندیم قاسمی

 

 

 

تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے
تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا

بے نیازی سے مگر کانپتی آواز کے ساتھ
تو نے گھبرا کے مرا نام نہ پوچھا ہوتا

تیرے بس میں تھی اگر مشعل جذبات کی لو
تیرے رخسار میں گلزار نہ بھڑکا ہوتا

یوں تو مجھ سے ہوئیں صرف آب و ہوا کی باتیں
اپنے ٹوٹے ہوئے فقروں کو تو پرکھا ہوتا

یوں ہی بے وجہ ٹھٹکنے کی ضرورت کیا تھی
دم رخصت میں اگر یاد نہ آیا ہوتا

تیرا غماز بنا خود ترا انداز خرام
دل نہ سنبھلا تھا تو قدموں کو سنبھالا ہوتا

اپنے بدلے مری تصویر نظر آ جاتی
تو نے اس وقت اگر آئنہ دیکھا ہوتا

حوصلہ تجھ کو نہ تھا مجھ سے جدا ہونے کا
ورنہ کاجل تری آنکھوں میں نہ پھیلا ہوتا

احمد ندیم قاسمی

One thought on “Ghazal in Urdu – Quotation Village”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *