Here Mentioned Best Ghazals in Urdu in Text
کبھی موقع ملا تو سب لکھوں گا میں ..
درد کے وہ لمحات لکھوں گا میں…
اپنو کی بے رخی کے حساب لکھوں گا میں ..
شدت غم سے ہوئے حالات نڈھال لکھوں گا میں
تذلیل کے وہ مناظر سرعام لکھوں گا
اس حسیں دھوکے کو جیتے جی موت لکھوں گا میں
سب رشتوں ناطوں کو فقط مطلب ہی مطلب لکھوں گا میں🫵
کبھی موقع ملا تو سب لکھوں گا میں🔥
یہ عادت ہی سہی عادت بھی کتنی خُوبصورت ہے
جمالِ یار سے دِل سیر ہوتا ہے کہیں میرا
تمھارے ساتھ ہُوں ہروقت ۔ خلوت ہو کہ جلوت ہو
جہاں تم ہو فضا افروز ۔ دل بھی ہے وہیں میرا
غم کو غزلوں میں سجا کر حسن پیدا کر لیا
میں نے اپنے درد کا بھی اک تماشہ کر لیا
میں نے بھی میں ٹھیک ہوں کہہ کر نگاہیں پھیر لیں
تو نے بھی اس جھوٹ پر رسماً بھروسہ کر لیا
جستجو تیری تھی پھر کیا دھوپ کیسی تشنگی
وسعت صحرا میں ان آنکھوں کو دریا کر لیا
اک تعلق یاد کا بچتا ہے جس پر بس نہیں
باقی جیسا تو نے چاہا میں نے ویسا کر لیا
کتنی ہی بے خواب راتیں بد حواسی شاعری
خود کو تیری یاد میں جون ایلیاؔ سا کر لیا
مطرب ساز شکستہ شاعر آشفتہ سر
اک تری فرقت میں میں نے خود کو کیا کیا کر لیا
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
تیور ترے اے رشک قمر دیکھ رہے ہیں
ہم شام سے آثار سحر دیکھ رہے ہیں
میرا دل گم گشتہ جو ڈھونڈا نہیں ملتا
وہ اپنا دہن اپنی کمر دیکھ رہے ہیں
کوئی تو نکل آئے گا سر باز محبت
دل دیکھ رہے ہیں وہ جگر دیکھ رہے ہیں
ہے مجمع اغیار کہ ہنگامۂ محشر
کیا سیر مرے دیدۂ تر دیکھ رہے ہیں
اب اے نگہ شوق نہ رہ جائے تمنا
اس وقت ادھر سے وہ ادھر دیکھ رہے ہیں
ہر چند کہ ہر روز کی رنجش ہے قیامت
ہم کوئی دن اسکو بھی مگر دیکھ رہے ہیں
آمد ہے کسی کی کہ گیا کوئی ادھر سے
کیوں سب طرف راہ گزر دیکھ رہے ہیں
ہماری تحریریں، وارداتیں بہت زمانے کے بعد ہوں گی
رواں یہ بے حِس اداس نہریں، ہمارے جانے کے بعد ہوں گی
کھنچی ہوئی ہیں اُفُق سے دل تک علامتِ وصل کی لَکیریں
مگر یہ زندہ کئی قبیلوں کا خوں بہانے کے بعد ہوں گی
طلب کے موسم گَنوائے میں نے، کمالِ غم سے دھواں دھواں تم
شکایتیں یہ کَڑے مَحاذوں سے لوٹ آنے کے بعد ہوں گی
گزرتے پَتّوں کی چاپ ہوگی تمہارے صحنِ اَنا کے اندر
فَسُردہ یادوں کی بارشیں بھی مجھے بُھلانے کے بعد ہوں گی
لرزتی پَلکوں کی چِلمَنوں پر نہیں ستارہ بھی پچھلی شب کا
کہا تھا تم نے کہ ”چاند راتیں تمہارے آنے کے بعد ہوں گی“
عادت مجھے تھی ایک ترے انتظار کی
اور میں بھی دیکھ ایک ہی عادت میں مر گیا
ہے سب فریب جان لیا تھا جو عشق ہے
پروانہ پھر بھی شمع کی چاہت میں مر گیا
بہت سے روگ مری زندگی کو لاحق ہیں
تُو دیکھ لے جو مجھے کچھ شفا سی ہو جائے
میں چاہتا ہوں ترے لب ہلیں مری خاطر
مزارِ یار پہ کچھ تو دعا سی ہو جائے
تُو ڈھانپ لے مری لرزش کو دل ربائی سے
خلوصِ عشق میں پوجا ادا سی ہو جائے
گلے لگا کے مجھے تُو پلٹ سکے نہ کبھی
بدن پہ پیار کی خوشبو قبا سی ہو جائے
قدم اٹھا کے اگر میری اُور آئے تُو
تو رنگ و روپ میں نکھری فضا سی ہو جائے
خزاں بھی دیکھ کے تجھ کو بہار بن جائے
صبا جو چھو لے تجھے خود فدا سی ہو جائے
چمن کی گود میں مچلیں گلاب کھلنے کو
کلی پہ تیری گر کچھ عطا سی ہو جائے
خط غیر کا پڑھتے تھے جو ٹوکا تو وہ بولے
اخبار کا پرچہ ہے خبر دیکھ رہے ہیں
پڑھ پڑھ کے وہ دم کرتے ہیں کچھ ہاتھ پر اپنے
ہنس ہنس کے مرے زخم جگر دیکھ رہے ہیں
میں داغؔ ہوں مرتا ہوں ادھر دیکھیے مجھ کو
منہ پھیر کے یہ آپ کدھر دیکھ رہے ہیں
” بتاؤ پھر کیا سیکھا تم نے _؟
کوئی روٹھا تو تم بھی روٹھ گئے
یا منانا سیکھا _؟🙂
کسی کے آنسوؤں پہ ہنس دیئے
یا چھپانا سیکھا _؟
کوئی بچھڑا تو تم بھی چل دیئے
یا نبھانا سیکھا _؟🍁
کسی کی غلطیوں پہ دی سزا
یا بھلانا سیکھا __” !🙂 ❤️
ہم جو ٹُوٹے تو اِس طرح ٹُوٹے،
جیسے ہاتھوں سے گر کہ پتھر پر،
کوئی شفاف آئینہ ٹُوٹے،
جیسے پلکوں سے ٹُوٹتا آنسُو،
جیسے سینے میں اک گُماں ٹوٹے،
جیسے امید کی کرن کوئی،
برگ موسم میں ناگہاں ٹُوٹے،
جیسے آنکھوں میں خواب کی ڈوری،
وقت تکمیل سے زرا پہلے،
گردش وقت سے اُلجھ جائے،
جیسے پیروں تلے زمیں سرکے،
جیسے سر پر یہ آسماں ٹُوٹے،
جیسے اک شاخ پہ بھروسہ کئے،
اس پہ جتنے تهے آشیاں ٹُوٹے،
جیسے وحشت سے ہوش آ جائے،
جیسے تادیر میں دهیاں ٹُوٹے
اب جو ریزہ ہوئے تو سوچتے ہیں،
کس نے دیکھا ہے ٹوٹنا اپنا،
ہم جو ٹوٹے تو رائگاں ٹوٹے۔۔۔۔
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے
حیران ہیں لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے
لمحاتِ مسرت ہیں تصور سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجا لیں گے رہِ شہرِ تمنا
مقدور نہیں صبح چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ اداؔ دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشۂ انجام ہی آئے
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اس کے پاس جاتے ہیں مگر آہستہ آہستہ
ابھی تاروں سے کھیلو چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ
دریچوں کو تو دیکھو چلمنوں کے راز تو سمجھو
اٹھیں گے پردہ ہائے بام و در آہستہ آہستہ
زمانے بھر کی کیفیت سمٹ آئے گی ساغر میں
پیو ان انکھڑیوں کے نام پر آہستہ آہستہ
یوں ہی اک روز اپنے دل کا قصہ بھی سنا دینا
خطاب آہستہ آہستہ نظر آہستہ آہستہ
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
تجھ کو پوجا ہے کہ اصنام پرستی کی ہے
میں نے وحدت کے مفاہیم کی کثرت کر دی
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تری الفت نے محبت مری عادت کر دی
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ
تیرے حالات نے کیسی تری صورت کر دی
کیا ترا جسم ترے حسن کی حدت میں جلا
راکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی
احمد ندیم قاسمی
پلکوں پہ انتظار کی جھالر سجھا کے ہم
بیٹھے ہیں چاند رات کی چھتری کئے ہوئے
تیری جھلک کی بُھوک ہے آنکھوں کو اس طرح
جیسے کہ روزہ دار ہوں سحری کئے ہوئے
ڈھلنے لگی ہے شام غم کوئی گیت گائیے
بجنے لگی ہے شہنائی الم کوئی گیت گائیے
ساگر برکھا چندا تارے محو وجد ہیں سارے
ڈھلنے لگی ہے شام غم کوئی گیت گائیے
ہم رباب لاتے ہیں آپ اہتمام چراغاں کرو
ڈھلنے لگی ہے شام غم کوئی گیت گائیے
ساقیا میں درد لایا ہوں تو شراب لے آ
ڈھلنے لگی ہے شام غم کوئی گیت گائیے
تو جو بدلاتو شام بھی بدلی بدلی لگتی ہے
ڈھلنے لگی ہے شام غم کوئی گیت گائیے
تجھےسوچ کرراہ تکتےصبح سے شام ہوئی
ڈھلنے لگی ہے شام غم کوئی گیت گائیے
آشنادرد دل اک شام چپکے سے چھوڑ گیا
ڈھلنے لگی ہے شام غم کوئی گیت گائیے
آواز کے پتھر جو کبھی گھر میں گرے ہیں
آسیب خموشی کے صباؔ چیخ پڑے ہیں
پازیب کے نغموں کی وہ رت بیت چکی ہے
اب سوکھے ہوئے پتے اس آنگن میں پڑے ہیں
چھپ جائیں کہیں آ، کہ بہت تیز ہے بارش
یہ میرے ترے جسم تو مٹی کے بنے ہیں
اس دل کی ہری شاخ پہ جو پھول کھلے تھے
لمحوں کی ہتھیلی پہ وہ مرجھا کے گرے ہیں
اس گھر میں کسے دیتے ہو اب جا کے صدائیں
وہ ہارے تھکے لوگ تو اب سو بھی چکے ہیں
فرض کر ، ہاتھ کی لکیر بدل جائے ۔۔۔۔۔ تو !
دعا کے بعد ، پھر تقدیر بدل جائے ۔۔۔۔۔۔۔تو !
تمھاری بات پہ ” کامل یقین “ کیسے ہو ؟
ایک نقطے سے سب تفسیر بدل جائے ۔۔۔۔۔ تو !
ایک منظر پہ ” مصور “ پہ رائے مت دینا
دوسرے رخ سے وہ تصویر بدل جائے ۔۔۔۔۔ تو !
حواس چھین لے ” دولت “ تو پھر حرام سہی ؟
اور ۔۔۔۔۔ شراب کی ” تاثیر “ بدل جائے ۔۔۔۔۔۔ تو !
” خود کشی “ ایسے مریدوں کے لئے جائز ہے ؟
” حامل ِ بیعت “ اگر ” پیر “بدل جائے ۔۔۔۔۔۔ تو !
چھین لی نیند نگاہوں سے جن خوابوں نے
ان خوابوں کی ہی تعبیر بدل جائے ۔۔۔۔۔۔ تو !
کیا کوئی شاعری سے ” پیار “ نہیں کر سکتا
کسی رانجھے کی اگر ہیر بدل جائے ۔۔۔۔۔۔ تو !
ہے بدگمان زمانہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔ ” قلم “ رکھتے ہیں
ہاتھ میں آ کے جو ” شمشیر “ بدل جائے ۔۔۔۔ تو !
غریب ِ حال زمانے میں جی گئے ! خاکی
روز . محشر میری جاگیر بدل جائے ۔۔۔۔۔ تو !
جب تک تمہاری یاد کے جالے پڑے رہے
ہم کو ہماری جان کے لالے پڑے رہے
اک روز میں نے ڈانٹا اسے پیار پیار میں
چھ دن مری زبان پہ چھالے پڑے رہے
جب تک تھا میرے ہاتھ میں اس سانولی کا ہاتھ
چہرے تمام شہر کے کالے پڑے رہے
اس نے جو پھول توڑے ، کتابوں میں رکھ دیے
میں نے جو خط لفافوں میں ڈالے، پڑے رہے
نومبر پھر چلا آیا
یہی دن تھے,
کہ جب میں نے جیے تھے
زندگی کے خوبصورت پل…
یہی دن تھے,
کہ جب میں نے ملائم نرم ہر احساس کو
لفظوں میں ڈھالا تھا,
انہی ایام کی
لمبی, جواں راتوں میں ہی بنیاد رکھی تھی
کئی رنگین خوابوں کی,
یہی آغاز سرما کی حسیں راتیں,
کہ جب تھا چاند بھی آدھا,
نہ میں سوتی , نہ تم سوتے,
کسے پرواہ تھی نیندوں کی?
کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے
پھر سارے کا سارا کیسے ہو سکتا ہے
تجھ سے جب مل کر بھی اداسی کم نہیں ہوتی
تیرے بغیر گزارا کیسے ہو سکتا ہے
کیسے کسی کی یاد ہمیں زندہ رکھتی ہے
ایک خیال سہارا کیسے ہو سکتا ہے
ہم بھی کیسے ایک ہی شخص کے ہو کر رہ جائیں
وہ بھی صرف ہمارا کیسے ہو سکتا ہے
کیسے ہو سکتا ہے جو کچھ بھی میں چاہوں
بول نا میرے یارا کیسے ہو سکتا ہے
جواد شیخ
تو محنت کر محنت دا صلہ جانے خدا جانے
تو ڈیوا بال کے رکھ چا، ہوا جانے خدا جانے
خزاں دا خوف تاںمالی کوں بزدل کر نئیں سکدا
چمن آباد رکھ، باد صبا جانے ، خدا جانے
مریض عشق خود کوںکر، دوا دل دی سمجھ دلبر
مرض جانے، دوا جانے، شفا جانے ، خدا جانے
جہ مر کے زندگی چاہندیں، فقیری ٹوٹکا من گھن
وفا دے وچ فنا تھی ونج، بقا جانے، خدا جانے
اے پوری تھیوے نہ تھیوے مگر بےکار نئیں ویندی
دعا شاکر تو منگی رکھ، دعا جانے، خدا جانے
(
جل گئے تھے وه خواب سارے
وه خواہشوں کے گلاب سارے🥀
زمیں بھی فطرت بدل رہی تھی
خزاں اُداسی اُگل رہی تھی🍁
جو بچ بھی جاؤ فریب سمجھو
خوشی کے اندھے جواز سارے
وه بربریت کے تپتے صحرا
موت برحق کے جال سارے
تمہیں وه جاناں بُلا رہے تھے
اذِیتوں کے سراب سارے💔
وه دیکھو مدت ختم ہوئی ہے
عذاب سانسیں اُکھڑ گئی ہیں😢
تمہیں بشارت، چُنی گئی ہو
چمن نے تم کو کفن دیا ہے🥀
تمہاری قسمت سے مٹ گئے ہیں
غمِ جہاں کے حساب سارے🍁
خدا کرے کہ گزارے گا اب سرور کے ساتھ
جو مجھ سے دور ہوا ہے بڑے غرور کے ساتھ
چہار سمت کے چرچوں سے اتنا ثابت ہے
میں شعر کہنے لگی ہوں ابھی شعور کے ساتھ
مہوش احسن