دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے فیض احمد فیض

Faiz Ahmad Faiz, a celebrated Urdu poet, has left an indelible mark on literature with his profound and evocative poetry. Born in British India in 1911, Faiz’s life was marked by his activism, journalism, and literary contributions. His poetry, characterized by its deep humanism, political undertones, and lyrical beauty, resonates with readers across generations.

Faiz’s poetry often explores themes of love, freedom, social justice, and resistance against oppression. His verses are not only aesthetically pleasing but also carry powerful messages that reflect the socio-political realities of his time and continue to remain relevant today.

One of Faiz’s most famous works is “Bol,” which became an anthem for the oppressed and a rallying cry for social change. In this poem, Faiz calls on people to speak up against injustice and tyranny, urging them to break their chains and assert their rights.

Another notable aspect of Faiz’s poetry is its universal appeal. Despite being deeply rooted in Urdu literature, his verses have been translated into numerous languages, allowing readers from different cultural backgrounds to appreciate his work.

Faiz’s legacy extends beyond his poetry; he was also a prominent figure in the progressive writers’ movement in South Asia and played a significant role in shaping the cultural and political landscape of the region.

 

فیض احمد فیض ❤️❤️
===============
           جب تجھے یاد کرلیا، صبح مہک مہک اٹھی
           جب ترا غم جگا لیا، رات مچل مچل گئی.

فیض احمد فیض ❤️❤️

===============

جب تجھے یاد کرلیا، صبح مہک مہک اٹھی

جب ترا غم جگا لیا، رات مچل مچل گئی.

 

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر .......تو آرزو ہی سہی۔

فیض احمد فیض 🖤

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں وصال میسر …….تو آرزو ہی سہی۔

فیض احمد فیض 🖤

 

‏آئے تو  یوں کہ جیسے  تھے  ہمیشہ مہرباں
 بھولے تو یوں کہ جیسے کبھی آشنا نہ تھے

 فیض احمد فیض

‏آئے تو یوں کہ جیسے تھے ہمیشہ مہرباں

بھولے تو یوں کہ جیسے کبھی آشنا نہ تھے

فیض احمد فیض

 

یوں بہار آئی ہے اس بار کے جیسے قاصد... 
کوچۂ یار سے بے نیلِ‌مرام آتا ہے

 ― فیض احمد فیض

یوں بہار آئی ہے اس بار کے جیسے قاصد…

کوچۂ یار سے بے نیلِ‌مرام آتا ہے

― فیض احمد فیض

 

 

ہمت التجا نہیں باقی

ضبط کا حوصلہ نہیں باقی

اک تری دید چھن گئی مجھ سے

ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی

اپنی مشق ستم سے ہاتھ نہ کھینچ

میں نہیں یا وفا نہیں باقی

تیری چشم الم نواز کی خیر

دل میں کوئی گلا نہیں باقی

ہو چکا ختم عہد ہجر و وصال

زندگی میں مزا نہیں باقی
فیض احمد فیض

 

گزشتہ حسرتوں کے داغ میری دل سے دھل جائیں 
میں آنے والے غم کی فکر سے آزاد ہو جاؤں

فیض احمد فیض 🍁

گزشتہ حسرتوں کے داغ میری دل سے دھل جائیں

میں آنے والے غم کی فکر سے آزاد ہو جاؤں

فیض احمد فیض 🍁

 

‏واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے... 
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہو گی

 ― فیض احمد فیض

‏واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے…

اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہو گی

― فیض احمد فیض

 

‏کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم...
ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے...

فیض احمد فیض

‏کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم…

ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے…

فیض احمد فیض

 

نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں 
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں 

فیض احمد فیض

نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں

اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں

فیض احمد فیض

 

 

ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے یہ اکرام ہی تو ہے

کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں
شوق فضول و الفت ناکام ہی تو ہے

دل مدعی کے حرف ملامت سے شاد ہے
اے جان جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

دست فلک میں گردش تقدیر تو نہیں
دست فلک میں گردش ایام ہی تو ہے

آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا
وہ یار خوش خصال سر بام ہی تو ہے

بھیگی ہے رات فیضؔ غزل ابتدا کرو
وقت سرود درد کا ہنگام ہی تو ہے

فیض احمد فیض

 

گزشتہ حسرتوں کے داغ میری دل سے دھل جائیں 
میں آنے والے غم کی فکر سے آزاد ہو جاؤں

فیض احمد فیض 🍁

گزشتہ حسرتوں کے داغ میری دل سے دھل جائیں

میں آنے والے غم کی فکر سے آزاد ہو جاؤں

فیض احمد فیض 🍁

 

 

چلو اب ایسا کرتے ہیں ستارے بانٹ لیتے ہیں ۔
ضرورت کے مطابق ھم سہارے بانٹ لیتے ہیں ۔

محبت کرنے والوں کی تجارت بھی انوکھی ہے
منافع چھوڑ دیتے ہیں خسارے بانٹ لیتے ہیں ۔

اگر ملنا نہیں ممکن تو لہروں پر قدم رکھ دو
ابھی دریائے الفت کے کنارے بانٹ لیتے ہیں۔

میری جھولی میں جتنے بھی وفا کے پھول ہیں انکو۔
اکٹھے بیٹھ کر سارے کے سارے بانٹ لیتے ہیں۔

محبت کے علاوہ پاس اپنے کچھ نہیں ہے فیض
اسی دولت کو ھم قسمت کے مارے بانٹ لیتے ہیں۔

فیض احمد فیض

 

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد___!!🌸🎀

فیض احمد فیض

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

تھے بہت بے درد لمحے ختمِ درد عشق کے

تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد___!!🌸🎀

فیض احمد فیض

 

اُمید یار ، نظر کا مزاج ، درد کا رنگ
تُم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اُداس بہت ہے

فیض احمد فیض 🍂🖤🥀

اُمید یار ، نظر کا مزاج ، درد کا رنگ

تُم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اُداس بہت ہے

فیض احمد فیض 🍂🖤🥀

 

‏تیرے دستِ ستم کا عجز نہیں
دل ہی کافر تھا جس نے آہ نہ کی

 فیض احمد فیض

‏تیرے دستِ ستم کا عجز نہیں

دل ہی کافر تھا جس نے آہ نہ کی

فیض احمد فیض

 

 

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

فیض احمد فیض

 

کبھی تو صبح ترے کُنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
جو ہم پی گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے
فیض احمد فیض

کبھی تو صبح ترے کُنجِ لب سے ہو آغاز

کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے

جو ہم پی گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں

ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے

فیض احمد فیض

 

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

فیض احمد فیض

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

فیض احمد فیض

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *