کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

خراب صدیوں کی بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں
اب ان بے انت خلاؤں میں خواب کیا دیتے

ہوا کی طرح مسافر تھے دلبروں کے دل
انہیں بس ایک ہی گھر کا عذاب کیا دیتے

شراب دل کی طلب تھی شرع کے پہرے میں
ہم اتنی تنگی میں اس کو شراب کیا دیتے

منیرؔ دشت شروع سے سراب آسا تھا
اس آئنے کو تمنا کی آب کیا دیتے

منیر نیازی

 

 

 

آدھی کہانی اور باب نا مُکمل۔
سُرخ آنکھوں کا خواب نا مُکمل۔🍂🍁

چند کامل سوال کیے میں نے۔
مِلا جِن کا___جواب نا مُکمل۔🍂🍁

عُمر بھر ہم نے رکھا اُس سے۔
نام کا فاصلہ اور اِجتناب نا مُکمل۔🍂🍁

کُچھ بھی یکسر نہ مِلا ہم کو۔
عِشق لا حاصل، اِضطراب نا مُکمل۔🍂🍁

نہ پورے متقی نہ پورے گناہگار۔
ذرا سلجھے ہوئے، اور خراب نا مُکمل۔🍂🍁

زندگی جلد ہی اختتام کو پہنچی۔
اور رہ گئے سارے حِساب نا مُکمل۔🍂🍁

اِک دوسرے سے بِچھڑ کے حقیقت ہے۔
میں ناقص ہوں اور جناب نا مُکمل۔🍂🍁

بہار رستے سے پلٹ گئی واپس۔
شجر اُداس رہا، اور گُلاب نا مُکمل۔🍂🍁

میں تکمیلِ ہنر میں ہوں سو میرا۔
ذوق ادھورا ہے اور انتخاب نا مُکمل۔🍂🍁

 

 

 

گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے

کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبار چلے

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے

مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
فیض احمد فیض

 

 

 

یہ جو سرگشتہ سے پِھرتے ھیں , کتابوں والے
اِن سے مَت مِل ، کہ اِنہیں روگ ھیں خوابوں والے۔

اب نئے سال کی ، مہلت نہیں مِلنے والی
آ چکے اب تو ، شب و روز عذابوں والے۔

اب تو سب ، دُشنہ و خنجر کی زباں بولتے ھیں
اب کہاں لوگ ، محبت کے نصابوں والے۔

زندہ رہنے کی تمنا ھو تو ، ھو جاتے ھیں
فاختاؤں کے بھی کردار ، عقابوں والے۔

نہ میرے زخم کِھلے ھیں ، نہ تیرا رنگِ حِنا
موسم آئے ھی نہیں ، اب کے گلابوں والے۔

احمّد فراز”

 

 

 

چاند میری طرح پگھلتا رہا
نیند میں ساری رات چلتا رہا

جانے کس دُکھ سے دل گرفتہ تھا
مُنہ پہ بادل کی راکھ ملتا رہا

میں تو پاؤں کے کانٹے چُنتی رہی
اور وہ راستہ بدلتا رہا

رات گلیوں میں جب بھٹکتی تھی
کوئی تو تھا جو ساتھ چلتا رہا

موسمی بیل تھی مَیں ، سُوکھ گئی
وہ تناور درخت، پَھلتا رہا

سَرد رُت میں ، مُسافروں کے لیے
پیڑ ، بن کر الاؤ ، جلتا رہا

دل ، مرے تن کا پھُول سا بچّہ
پتّھروں کے نگر میں پلتا رہا

نیند ہی نیند میں کھلونے لیے
خواب ہی خواب میں بہلتا رہا

پروین شاکر

 

 

 

جب تلک تو میری بنی رہے گی
میرے سینے میں شاعری رہے گی

میں تیری بات مانتا رہوں گا
اور تُو جھوٹ بولتی رہے گی

آخری صف میں بیٹھ کر وہ مجھے
اپنی آنکھوں سے چومتی رہے گی

لڑکیاں ورغلائی جارہی ہیں
شاعری جال میں پھنسی رہے گی

لوگ مجھ کو سراہتے رہیں گے
ایک آواز کی کمی رہے گی

میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بھی
وہ کہیں اور دیکھتی رہے گی

اس پہ خلوت کا رنگ ایسا ہے
سینکڑوں میں بھی ایک ہی رہے گی

شاعری وہ سب کی پڑھے گی مگر
رنگ زریون پہ مری رہے گی

علی زریون بھائی

 

 

 

کُج شوق سِی یار فقیری دا
کُج عشق نے دَر دَر رول دِتا

کُج سجناں کَسر نہ چُھوڑی سِی
کُج زہر رَقیباں گھول دِتا

کُج ہجر فِراق دَا رنگ چڑھیا
کُج دردِ ماہی انمول دِتا

کُج سڑ گئی قسمت میری
کُج پیار وِچ یاراں رُول دِتا

کُج اونج وِی راہواں اوکھیاں سَن
کُج گل وِچ غم داَ طوق وِی سِی

کُج شہر دے لوگ وِی ظالم سَن
کُج سانوں مَرن دا شوق وِی سی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *