Here Mentioned Top 8 Ghazals in Urdu in Text
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ
تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم
اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لیے آ
اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ
لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے
کون سے شہر میں ہوتا ہے کدھر ہوتا ہے
اس کے کوچے میں ہے نت صورت بیداد نئی
قتل ہر خستہ بانداز دگر ہوتا ہے
نہیں معلوم کہ ماتم ہے فلک پر کس کا
روز کیوں چاک گریبان سحر ہوتا ہے
اس کی مژگاں کا کوئی نام نہ لو کیا حاصل
میرا ان باتوں سے سوراخ جگر ہوتا ہے
مصحفیؔ ہم تو ترے ملنے کو آئے کئی بار
اے دوانے تو کسی وقت بھی گھر ہوتا ہے
مصحفی غلام ہمدانی
کیوں نہ ہم عہدِ رفاقت کو بھلانے لگ جائیں
شاید اِس زخم کو بھرنے میں زمانے لگ جائیں
نہیں ایسا بھی کہ اک عمر کی قربت کے نشے
ایک دو روز کی رنجش سے ٹھکانے لگ جائیں
یہی ناصح جو ہمیں تجھ سے نہ ملنے کو کہیں
تجھ کو دیکھیں تو تجھے دیکھنے آنے لگ جائیں
ہم کہ ہیں لذتِ آزار کے مارے ہوئے لوگ
چارہ گر آئیں تو زخموں کو چُھپانے لگ جائیں
ربط کے سینکڑوں حیلے ہیں محبت نہ سہی
ہم ترے ساتھ کسی اور بہانے لگ جائیں
ساقیا مسجد و مکتب تو نہیں مے خانہ
دیکھنا پھر بھی غلط لوگ نہ آنے لگ جائیں
قرب اچھا ہے مگر اِتنی بھی شدت سے نہ مِل
یہ نہ ہو تجھ کو مرے روگ پُرانے لگ جائیں
اب فراز آؤ چلیں اپنے قبیلے کی طرف
شاعری ترک کریں بوجھ اُٹھانے لگ جائیں
احمد فراز
ہوس نصیب نظر کو کہیں قرار نہیں
میں منتظر ہوں مگر تیرا انتظار نہیں
ہمیں سے رنگِ گلستاں ہمیں سے رنگِ بہار
ہمیں کو نظمِ گلستاں پہ اختیار نہیں
ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت اے مطرب
ابھی حیات کا ماحول خوشگوار نہیں
تمہارے عہدِ وفا کو میں عہد کیا سمجھوں
مجھے خود اپنی محبت پہ اعتبار نہیں
نہ جانے کتنے گلے اس میں مضطرب ہیں ندیم
وہ ایک دل جو کسی کا گلہ گزار نہیں
گریز کا نہیں قائل حیات سے لیکن
جو سچ کہوںکہ مجھے موت ناگوار نہیں
یہ کس مقام پہ پہنچا دیا زمانے نے
کہ اب حیات پہ ترا بھی اختیار نہیں
زرد پھولوں کی سکونت پہ نظر تھی میری
ہجر کے باغ میں وحشت پہ نظر تھی میری
ایک بے کار سی حسرت نے مجھے تھام لیا
ورنہ گرنے کی سہولت پہ نظر تھی میری
بہہ گئے لفظ مری آنکھ کی طغیانی میں
جانے بوسیدہ سے کس خط پہ نظر تھی میری
چاروں دیواریں مری سمت لگیں پھر چلنے
دیر سے ہلتی ہوئی چھت پہ نظر تھی میری
منتظر تھی کسی بادل کی صریرِ خامہ
چشمِ پُر آب کی برکت پہ نظر تھی میری
ایک یلغار تھی احساس کے دروازے پر
شورشِ جاں کی بغاوت پہ نظر تھی میری
میری قوت سے خریداری کہیں باہر تھی
اُس کی گرتی ہوئی قیمت پہ نظر تھی میری
بچھڑ گئے تو یہ دل عمر بھر لگے گا نہیں
لگے گا لگنے لگا ہے مگر لگے گا نہیں
نہیں لگے گا اسے دیکھ کر مگر خوش ہے
میں خوش نہیں ہوں مگر دیکھ کر لگے گا نہیں
ہمارے دل کو ابھی مستقل پتا نہ بنا
ہمیں پتا ہے ترا دل ادھر لگے گا نہیں
جنوں کا حجم زیادہ تمہارا ظرف ہے کم
ذرا سا گملا ہے اس میں شجر لگے گا نہیں
اک ایسا زخم نما دل قریب سے گزرا
دل اس کو دیکھ کے چیخا ٹھہر لگے گا نہیں
جنوں سے کند کیا ہے سو اس کے حسن کا کیل
مرے سوا کسی دیوار پر لگے گا نہیں
بہت توجہ تعلق بگاڑ دیتی ہے
زیادہ ڈرنے لگیں گے تو ڈر لگے گا نہیں
تیرے ہونے کا یقیں تجھ کو دلایا تھا کبھی
میں نے اے شخص تجھے جینا سکھایا تھا کبھی
آخر اک روز مجھے تجھ سے نکلنا تھا کہ میں
وہم کی طرح تِرے ذہن میں آیا تھا کبھی
تجھ سے تعبیر نہیں مانگی مگر یاد تو کر
تونے ان آنکھوں کو اک خواب دکھایا تھا کبھی
اب لہو تھوک رہا ہے وہ تری فرقت میں
جس نے محفل میں تری رنگ جمایا تھا کبھی
تُو جنہیں کاٹ رہا ہے بڑی بے دردی سے
انہیں ہاتھوں سے تجھے میں نے بنایا تھا کبھی
قہقہے اس لیے اب راس نہیں آتے مجھے
میں نے اِک شخص کو جی بھر کے ہنسایا تھا کبھی
ہچکیاں آنے لگیں کتنی لبِ بام ابھی
اِتنی شدّت سے لیا کس نے مرا نام ابھی
خوشبوئےعشق تو پھیلی ہے بہت پہلے سے
پیار ہے قبل سے لیکن ہوا بدنام ابھی
اب عدالت میں وکالت تو بہت ہوتی ہے
کچھ تو چرچہ ہوا باقی ہے کچھ الزام ابھی
مجھ کو شہرت کی بلندی سے تو ڈر لگتا ہے
اے میرے یار ! مجھے رہنے دے گمنام ابھی
میں نہیں پیتا کبھی بھی شراب بوتل میں
سامنے رہنے دے آنکھوں کا اپنے جام ابھی
چھوڑ کے تنہا مجھے اس طرح جاتے کیوں ہو
ڈھل گیا دن بھی مگر باقی تو ہے شام ابھی
وقت نے مجھ کو نہیں چھوڑا کہیں کا ظالم
ساتھ میرے نہیں ہے گردشِ ایّام ابھی
پیار کرنے کی قمرؔ ان کو نہیں ہے فرصت
ملنے جاتا ہوں تو کہتے ہیں کہ ہے کام ابھی
چلتے ہیں وہ جو مجھ سے بھی دامن کو بچا کر
رکھتے تھے کبھی پھول کو رَستے میں بِچھا کر
ہر ر و ز مٹاتا ہوں کئ بار تمہاری
انگلی ہی سے اس ریت پہ تصویر بنا کر
نفرت سے کبھی ہو نہ سکا ہے کوئی علاج
الفت سے مرے دوست تُو نفرت کی دوا کر
عادت ہے مری کرنا یہ تقسیم اجالا
تًو مجھ سے محبت میں جفا کر یا وفا کر
گر چاہتا ہے تُو کہ مکمل خوشی ملے
تیری جو بُرائی کرے تُو اس کا بَھلا کر
جب نیند نہ آئے قمرؔ تو راتوں کو تم بھی
چھت پر ہی ٹہل کر کے یہ تاروں کو گِنا کر