Best URDU GHAZAL IN TEXT
قصّے میری الفت کے جو مرقوم ہیں سارے
آ دیکھ ترے نام سے موسوم ہیں سارے
اب کون میرے پاؤں کی زنجیر کو کھولے
حاکم میری بستی کےبھی محکوم ہیں سارے
شاید یہ ظرف ہے جو خاموش ہوں اب تک
ورنہ تو ترے عیب بھی معلوم ہیں سارے
سب جرم میری ذات سے منسوب ہیں محسن
کیا میرے سوا اس شہر میں معصوم ہیں سارے
حقیقت جان کر ایسی حماقت کون کرتا ہے
بھلا بے فیض لوگوں سے محبت کون کرتا ھے
بتاو جس تجارت میں خسارہ ھی خسارہ ھو
بنا سوچے خسارے کی تجارت کون کرتا ھے
ھمیں ھی غلط فہمی تھی کسی کے واسطے ورنہ
زمانے کے رواجوں سے بغاوت کون کرتا ہے؟
خدا نے صبر کرنے کی مجھے توفیق بخشی ھے
ارےجی بھر کے تڑپاو شکایت کون کرتا ھے
کسی کے دل کے زخموں پر مربم رکھنا ضروری ھے
مگر اس دور میں محسن یہ زحمت کون کرتا ھے
محسن نقوی
چھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں
تمہاری بزم میں ہم بے زبان بیٹھے ہیں
یہ اور بات کہ منزل پہ ہم پہنچ نہ سکے
مگر یہ کم ہے کہ راہوں کو چھان بیٹھے ہیں
فغاں ہے، درد ہے، سوز و فراق و داغ و الم
ابھی تو گھر میں بہت مہربان بیٹھے ہیں
اب اور گردشِ تقدیر کیا ستائے گی
لٹا کے عشق میں نام و نشان بیٹھے ہیں
وہ ایک لفظ محبت ہی دل کا دشمن ہے
جسے شریعتِ احساس مان بیٹھے ہیں
ہے میکدے کی بہاروں سے دوستی ساغرؔ
ورائے حدِ یقین و گمان بیٹھے ہیں
ساغر صدیقی
کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے
رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے
جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سوجاتی ہیں
ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے
کردیا آج زمانے نے انہیں بھی مجبور
کبھی یہ لوگ مرے دکھ کی دوا کرتے تھے
دیکھ کر جو ہمیں چپ چاپ گزر جاتا ہے
کبھی اُس شخص کو ہم پیار کیا کرتے تھے
اتفاقاتِ زمانہ بھی عجب ہیں ناصر
آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے
ناصر کاظمی ✍️
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نماز شوق تو واجب ہے بےوضو ہی سہی
کسی طرح تو جمے بزم مے کدے والو
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی
سبھی چراغ بڑی دیر اس کی زد میں رہے
ہوا سے کہنا کہ اس بار اپنی حد میں رہے
وہ جن کو ظلمتِ شب پر قلم اٹھانا تھا
وہ محو ، مدحتِ تفسیرِ خال و خد میں رہے
کومل جوئیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیا ہوں سوالی کیا اچھا لگوں گا ؟
روتے ہوۓ در سے ترے جاتا ہوا میں
اک پیڑ کے سایہ میں لکھی اپنی غزل
سورج کی شعاعوں کو سناتا ہوا میں
سوچو تو سہی اب بھلا کیسا لگوں گا
بالوں میں ترے پھول لگاتا ہوا میں
میرا سکوت سُن ، مِری گویائی پر نہ جا
آنکھوں کے حرف پڑھ، غزل آرائی پر نہ جا
دو چار دن کے بعد بُھلا ڈالتے ہیں لوگ
دو چار دن کی جھوٹی پذیرائی پر نہ جا
گر دیکھنے کی بات ہے تو پُورے دل سے دیکھ
ان دھوکے باز آنکھوں کی بینائی پر نہ جا
لمحے جدائیوں کے ستانے لگے مجھے
رہ رہ کے اب تو یاد وہ آنے لگے مجھے
تعبیر اس کی ایک گھڑی بھی نہیں رہی
جو خواب دیکھنے میں زمانے لگے مجھے
جن میں کھلے تھے پھول محبت کے، چاہ کے
موسم وہ زندگی کے سہانے لگے مجھے
تعلیم جن کو سجنے سنورنے کی میں نے دی
کیوں آئنہ وہ لوگ دکھانے لگے مجھے
جب راستے میں وقت نے کانٹے بچھا دئیے
پھر میرے دوست آگے بڑھانے لگے مجھے
ان کو جلا رہا تھا بجھے دل کے ساتھ میں
پھر یوں ہوا چراغ جلانے لگے مجھے
احوالِ زیست ان سے تھا پوچھا مگر فصیح
وہ میری داستان سنانے لگے مجھے
شاہین فصیح ربانی