ghazal in urdu

Best Urdu Ghazals Mentioned Below

 

تعلق توڑتا ہوں تو_____ مکمل توڑ دیتا ہوں
میں جس کو چھوڑ دیتا ہوں مکمل چھوڑ دیتا ہوں

محبت ہو کہ نفرت ہو_ بھرا رہتا ہوں شّدت سے
جدھر سے آئے یہ دریا __وہیں کو موڑ دیتا ہوں

یقیں رکھتا نہیں ہوں میں کسی کچے تعلق پر
جو دھاگہ ٹوٹنے والا ہو__اس کو توڑ دیتا ہوں

میرے دیکھے ہوئے سپنے_ کہیں لہریں نہ لے جائیں
گھروندے ریت کے تعمیر کرکے __چھوڑ دیتا ہوں!!!!

 

 

 

اِس دفعہ بچھڑنے میں کچھ الگ اذیّت تھی
شاید اِس دفعہ مجھ کو واقعی محبت تھی

مصلحت کے خنجر سے تم نے ہجر لکھا تھا
اس پہ کہہ دیا تم نے یہ ہماری قسمت تھی

سب نے رابطے توڑے بس یہی گلہ دے کر
آپ یاد کر لیتے آپ کو تو فرصت تھی

کیا سبب بنا جاناں ؟ تیری بے وفائی کا
لفظِ بے وفائی سے تم کو بھی تو نفرت تھی

ہاں بڑی حقیقت ہے تیری پارسائی میں
بس تمہارے دامن پر داغ میری صحبت تھی

تجھ کو میرے غم سے کیا ؟ شوق سے جُدا ہوجا
تجھ سے پہلے بھی جاناں، غم ہی میری دولت تھی

تجھ سے اِس تعلق میں کتنا مطلبی تھا میں
مجھ کو آخری دم تک بس تری ضرورت تھی.

 

 

 

 

ایک غزل احبابِ گراں قدر کی اعلی بصارتوں کے حوالے

کررہی ہے مجھ سے تیری بات تیرے بعد بھی
کیوں تماشہ کر رہی ہے رات تیرے بعد بھی

درد، غم ، تکلیف ،الجھن، بے کلی، درماندگی
مل رہی ہے عشق کی سوغات تیرے بعد بھی

تو نہیں رہ کر بھی حاوی ہے مرے احساس پر
دے رہی ہے زندگی صدمات تیرے بعد بھی

چُور تھا تیرے دیے زخموں سے کل بھی دل مرا
ہورہی ہے درد کی برسات تیرے بعد بھی

کرچی کرچی تھا مرا ہر خواب صحبت میں تری
زخمی زخمی ہیں سب احساسات تیرے بعد بھی

غم سے چھٹکارہ ملا ہے اور نہ فکروں سے نجات
مجھ پہ جاری ہیں یہ انعامات تیرے بعد بھی

تونے سوچا تھا جدائی مار ڈالے گی مجھے؟
جیسے کے تیسے ہیں سب حالات تیرے بعد بھی

ساتھ تیرے رہ کے جو الجھن میں رکھتے تھے مجھے
دل کو لاحق ہیں سبھی خدشات تیرے بعد بھی

 

 

 

 

ثناء اللہ ظھیر

خود میں اترے اور طغیانی سے باہر آ گئے
آ کے گہرائی میں ہم پانی سے باہر آ گئے

اس کی رونق میں بہت سنسان سے لگتے تھے ہم
شہر سے نکلے تو ویرانی سے باہر آ گئے

لفظ وہ جن کو زباں تک لانے کی ہمت نہ تھی
آخر اک دن میری پیشانی سے باہر آ گئے

دم بخود اس حسن کو ہی دیکھتے رہتے تھے ہم
یوں برت ٹوٹا کہ حیرانی سے باہر آ گئے

وہ تعلق ہم کو قید خواب جیسا تھا ظہیرؔ
کھل گئیں آنکھیں تو آسانی سے باہر آ گئے

آستیں میں پل رہے تھے لیکن اک دن یوں ہوا
سانپ آپس کی پریشانی سے باہر آ گئے

 

 

 

 

کبھی ہم بھی خوبصورت تھے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔!

کتابوں میں بسی خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی!
بہت سے ان کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے
لیکن ہمارے پاس رہتے تھے !
نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھ آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے۔۔۔ ۔۔امی!
تتلیوں کے پر بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
کہ ہم کو تتلیوں کے‘ جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو‘ روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو

 

 

 

 

عدنان حامد

اداسی اک اسیری ہے اداسی سے گھرا ہوں میں
اداسی ہی اداسی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں

اداسی اور اداسی اور اداسی اور اداسی بس
اداسی مجھ پہ حاوی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں

یقیں تیرا تھا بس مجھ کو خدارا کیوں کروں میں اب
تری ہستی خیالی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں

بھٹکتا در بہ در رہتا ہوں میں وحشت کے سائے میں
مری مردہ جوانی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں

پرستش کر رہا ہوں آج کل میں بس اداسی کی
اداسی جاودانی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں

ہلاک عشق ہوں یاروں مجھے مارا محبت نے
مری غمگیں کہانی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں

تعلق ہے سیاست کا یہاں ہر بات سے حامدؔ
اداسی بھی سیاسی ہے اداسی سے گھرا ہوں میں

 

 

 

عدنان منور

کبھی زمین کبھی آسماں بناتا ہوں
یہاں میں ریت پہ کتنے مکاں بناتا ہوں

عجیب طرز کی تصویر بنتی جاتی ہے
اب اس میں دیکھنا میں دل کہاں بناتا ہوں

مکان آگ میں جلتا بنا لیا پہلے
اب آسمان تلک میں دھواں بناتا ہوں

زمیں پہ کھینچ کے لاتا ہوں ابر کا ٹکڑا
مسافروں کے لئے سائباں بناتا ہوں

پرانے پیڑ پہ اک سانپ کا بسیرا ہے
نئی جگہ پہ کہیں آشیاں بناتا ہوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *