شاہ بہرام انصاری ”امی!ذرا مجھے ستر روپے تو دیجیے گا۔“زارا امی کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد جھانکتے ہوئے اندر داخل ہوئی۔“کیا ہوا،بیٹی ،اتنی اچانک سے ستر روپے کی ضرورت کہاں سے پڑ گئی؟“تھوڑی دیر پہلے انہوں نے زارا کو ہفتہ وار جیب خرچ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ضرورت ہو تو کچھ پیسے اور لے لو جس پر اس نے انکار کر دیا تھا اس لئے وہ تھوڑا اچنبھے سے پوچھ رہی تھیں۔ ”وہ امی․․․․میں نے کریم منگوانی تھی جس کے لئے پورے ستر روپے کم ہو رہے ہیں۔جب آپ مجھے زیادہ پیسے دینے لگیں تھیں تو میں نے سمجھا تھا کہ پیسے پورے ہوں گے کیونکہ ابھی پچھلے ہفتے کے جیب خرچ میں سے کچھ رقم بچی ہوئی تھی بعد میں میں نے پرس سے نکال کر گنے تو نئے ملا کر بھی ستر روپے کم تھے۔ (جاری ہے)
آپ تو خود مجھے زیادہ پیسے رکھنے کا کہہ رہی تھیں اس لئے سوچا ابھی مانگ لیتی ہوں کیونکہ ڈبی میں جتنی کریم پڑی ہوئی ہے،وہ رات کو بھی پوری نہیں آئے گی۔“ ان کے معمولی استفسار پر زارا نے پورے سیاق و سباق سے اپنا مدعا بیان کیا۔ ادھر امی کا دھیان اس ساری تفصیل سے ہٹ کر صرف ایک لفظ”کریم“پر تھا۔انہیں بالکل پتہ نہیں تھا کہ زارا کوئی کریم وغیرہ استعما ل کر رہی ہے۔چند دنوں سے انہیں اس کی رنگت میں کچھ تبدیلی سی محسوس ہو رہی تھی جسے وہ سرد موسم کی آمد کی وجہ جان کر نظر انداز کر گئی تھیں۔ نہ انہوں نے خود کبھی کریم استعما ل کی تھی،نہ زارا کے پاس اتنے پیسے ہوتے تھے کہ وہ مہنگی کریموں پر فضول میں خرچ کر سکے لہٰذا اس کی گنجائش نہیں رہتی تھی کہ اس پر کسی کریم کے استعمال کا شک کیا جائے۔ ویسے بھی ہفتے کے جیب خرچ سے بمشکل اس کے تعلیمی اخراجات ہی پورے ہوتے ہوں گے اس لئے اس بات کا امکان بھی نہیں تھا کہ وہ اس میں سے کچھ پیسے بچا کے رکھ لے۔ ”زارا بیٹی!کیا کہا تم نے،کیا تم کوئی کریم استعمال کر رہی ہو؟دراصل امی نے ایک بار اس سے پوچھ بھی لیا تھا کہ کہیں وہ چہرے پر کچھ لگا تو نہیں رہی جس پر وہ صاف مکر گئی تھی۔
اسی لئے انہوں نے اس کو واضح بتا دینے کے باوجود تصدیق چاہی۔ ”جی جی امی!اس دن آپ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے جھوٹ بول دیا تھا کیونکہ میں ڈر رہی تھی کہ کہیں آپ مجھ سے ناراض نہ ہو جائیں۔”زارا سچ کہہ رہی تھی کیونکہ اس ڈر کے آثار فی الوقت اس کے لہجے سے بھی ظاہر ہو رہے تھے۔امی نے اسے اپنے کمرے میں جانے کو بولا اور کہا کہ وہ نماز پڑھ کر اسے پیسے دیتی ہیں۔ زارا اپنے کمرے میں جا کر بے صبری سے ان کا انتظار کرنے لگی۔ادھر امی نماز سے فارغ ہو کر آٹا گوندھنے میں لگ گئیں۔ اس دوران وہ سوچتی رہی کہ کتنی جلدی زارا اتنی بڑی بھی ہو گئی کہ اپنی خوبصورتی کا سامان کر رہی ہے۔خیر آٹا گوندھنے کے بعد وہ اسے ٹھہرنے کے لئے رکھ کر زارا کے کمرے کی جانب بڑھیں،وہ کمرے میں بے چینی سے اِدھر اُدھر ٹہل رہی تھی۔
انہیں دیکھ کر اپنے بیڈ پہ بیٹھ گئی،وہ اس بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئیں۔ان کے ہاتھ میں پیسے نہیں تھے لہٰذا زارا ان سے پوچھنے لگی کہ امی نے خود اس سے پوچھ لیا۔ ”بیٹی!تم کب سے اور کس کے مشورے سے یہ کریم استعمال کرنے لگی ہو؟“ان کے انداز میں تاحال نرمی تھی۔ ”امی! وہ ہم پچھلے مہینے شادی پہ گئے تھے نا،وہاں صفیہ خالہ کی بیٹی آئی ہوئی تھی۔بڑی پیاری لگ رہی تھی بالکل سفید رنگت اور چہرے پر ایک بھی دانہ نہیں تھا۔میری تو اس سے نظر ہی نہیں ہٹ رہی تھی ،سچ میں بالکل چاند کی طرح چمک رہی تھی وہ میں نے اس کی تعریف کی تو بولی تم بھی فلاں کریم کا استعمال کرکے دیکھو،پندرہ دن کے اندر تم بھی میری طرح نظر آؤ گی۔ بس اس کا مشورہ تھا اور دیکھا آپ نے واقعی صرف ایک ڈبی کے استعمال سے میرا چہرہ کتنا صاف ہو گیا ہے۔کچھ لگائے بغیر ہی لگتا ہے جیسے ہلکا ہلکا میک اپ کیا ہو۔“زارا اپنے چہرے پہ آئی ہلکی سرخی کی جانب اشارہ کرکے پرجوش ہو رہی تھی۔ ”بیٹا!صفیہ خالہ کی بیٹی نے تمہیں احمقانہ مشورہ دیا اور تم نے عمل بھی کر لیا۔مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا بلکہ الٹا مجھ سے جھوٹ بولا کیوں؟“امی اب اس سے ناراضگی کا اظہار کرنے لگی تھیں۔”امی مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں آپ مجھے غصے میں آکر ڈانٹ نہ دیں۔ “زارا نے توجیہہ پیش کی۔“زارا بیٹا!تم نے چہرے کی محض ظاہری خوبصورتی کے لئے جلد کے کسی ماہر ڈاکٹر سے پوچھے بغیر کریم کا استعمال شروع کر دیا۔کیا تمہیں اندازہ ہے کہ اس کے نقصانات کیا ہوں گے؟“ (جاری ہے)
شاہ بہرام انصاری ”انہوں نے اس کے گالوں پر ہاتھ لگاتے ہوئے پوچھا۔“ہیں امی!کریم لگانے سے تو مجھے رنگ گورا ہونے کا فائدہ ہو رہا ہے اور آپ الٹا نقصان کا کہہ رہی ہیں۔”زارا حیرانی سے بولی تو امی اسے سمجھانے لگیں:”میری بیٹی!کہتے ہیں نا ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ اسی طرح کریم کے چند روز استعمال سے تمہیں اس کے جو فوائد نظر آرہے ہیں،کچھ عرصے بعد یہی نقصان دکھائی دیں گے۔جتنے دن تم اسے چہرے اور ہاتھوں پر لگاتی رہو گی،وہ صاف و سفید رہیں گے اور جب اس کے استعمال میں ناغہ ہو گا تو وہ تمہاری اصل رنگت کے برابر بھی نہیں اچھے لگیں گے۔ چہرے کے موجودہ رنگ کو برقرار رکھنے کے لئے تمہیں کریم کے استعمال کو اپنی عادت بنانا پڑے گا اور اسے ہر روز مستقل لگانا ہو گا۔ (جاری ہے)
اگر تم نے اس کا باقاعدگی سے استعمال جاری نہ رکھا تو جلد دوبارہ پہلے جیسی ہو جائے گی۔“کریم کی ڈبی پر پانچ دن کے اندر نکھار والے الفاظ اسے امی کی باتیں ہضم نہیں ہونے دے رہے تھے لہٰذا وہ گڑبڑاتے لہجے میں پوچھنے لگی:”مگر امی!کریم کے اندر بڑی سی پرچی بھی ہے جس پر لکھا ہے کہ چند دن کے استعمال سے ہی چہرہ ہمیشہ کی طرح صاف اور چمکدار ہو جائے گا۔ “اس کی بات پہ وہ مسکراتے ہوئے بولیں:”بیٹی!تم خود سوچو کیا ایسا ممکن ہے اور یہی نہیں ،ان گندی کریموں کے استعمال کے اور بھی بہت سارے نقصان ہیں۔سب سے پہلے انہیں خریدنے میں تمہارے ڈھیر سارے پیسے خرچ ہوں گے۔
اس کے بعد ظاہر ہے جب کریم لگانے سے تمہاری رنگت میں تبدیلی آئے گی تو دیکھنے والا ہر کوئی سمجھ جائے گا کہ تم کچھ استعمال کر رہی ہو اور تم سے اس کے بارے میں پوچھے گا۔ “زارا حیرت سے آنکھیں پھیلائے یہ سب باتیں سن رہی تھیں۔”امی!کیا واقعی ایک کریم لگانے کے اتنے سارے نقصانات برداشت کرنے ہوں گے؟“ امی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولیں:”جی بیٹی جی!اور اس کا سب سے بڑا نقصان تمہاری جلد کو ہو گا۔ تمہیں پتہ ہے ہر 28 دن بعد ہماری جلد دوبارہ بنتی ہے مگر یہ عمل اتنا سست ہوتا ہے کہ ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا۔اگر تم اپنی جلد کے قدرتی عمل اور رنگ کو ان بازاری کریموں سے نقصان پہنچاؤ گی تو زیادہ عرصے کے استعمال کے بعد تمہارا چہرہ خراب ہو جائے گا پھر وہ اپنی اصل رنگت اور لچک بھی کھو بیٹھے گا۔
کریم لگانے سے تمہیں اپنے چہرے پہ جو سرخی دکھائی دے رہی ہے،دراصل یہ جلد پتلی ہو رہی ہوتی ہے۔ان تمام نقصانات کے علاوہ سب سے بڑی بات یہ کہ تم خود اپنے آپ سے مطمئن نہیں ہو گی یعنی تمہیں ہر وقت یہ احساس رہے گا کہ تمہارا یہ صاف اور گورا چہرہ قدرتی طور پر خوبصورت نہیں بلکہ ان کریموں کے استعمال کی بدولت ہے اور لوگ تمہاری ذاتی شخصیت کی نہیں ان کریموں کے کمال کی ہی تعریف کر رہے ہیں۔ بس بیٹی!تم ظاہری خوبصورتی کی بجائے اپنے اندر کی خوبصورتی کی چاہ کرو۔اپنی خود اعتمادی،صلاحیتوں اور اچھے اخلاق و رویے سے لوگوں کو متاثر کرو اور ان کے دل جیتو۔تم نے سنا ہو گا کہ خوبصورتی تو ختم ہو جاتی ہے لیکن خوب سیرتی قبر تک جاتی ہے۔ بس تم بھی صورت کی بجائے سیرت کو ترجیح دو۔چہرے اور جلد کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ ہم باقاعدگی سے نہائیں اور پورے جسم کی صفائی کا خاص خیال رکھیں،یہی اصل خوبصورتی ہے۔اپنی جلد کو تم جتنا سادہ رکھو گی،وہ بڑھاپے تک اتنی ہی تروتازہ اور نرم و ملائم رہے گی پھر بھی میں تمہیں چند بے ضرر سادہ گھریلو ٹوٹکے بتاؤں گی جن میں صرف قدرتی اجزاء شامل ہوں گے۔ اس سے تمہارا چہرہ روزمرہ کی گرد و غبار سے محفوظ رہے گا۔
اس کے برعکس کریموں سے تمہارے چہرے پر دانے نکل آئیں گے جو بعد میں نشان چھوڑ جائیں گے۔پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرو اور تمام نمازیں پڑھو۔پانچ بار وضو کرنے سے تمہارا چہرہ خود بخود نکھر جائے گا۔ اس کے ساتھ تمہیں اپنی خوراک کے لئے بھی صحت بخش غذائی اشیاء کا انتخاب کرنا ہو گا۔درحقیقت چہرے کی خوبصورتی اور جسم کی صحت مندی بھی اچھی خوراک اور ورزش کی مرہون منت ہے۔“ امی کی باتیں غور سے سن کر زارا کہنے لگی:”امی!میں وعدہ کرتی ہوں کہ اب سے جلد کی خوبصورتی اور حفاظت کے لئے معیاری غذا،روزانہ کی ورزش،گھریلو نسخوں اور صفائی کو اپنا معمول بناؤں گی۔ “امی اس کی سمجھداری پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے بولیں:”شاباش بیٹی!اور اس کے ساتھ اپنے ذہن کو پریشانی اور فضول سوچوں سے دور رکھو تاکہ تم پوری طرح تازہ دم نظر آؤ۔
Hey people!!!!!
Good mood and good luck to everyone!!!!!