Asadullah Bilali’s life story epitomizes the triumph of determination and the power of education. Born in Afghanistan, he overcame adversity to pursue his quest for knowledge. His vision extended beyond personal gain, focusing on empowering communities through education. Asadullah’s legacy inspires countless individuals to defy obstacles and embrace the transformative potential of education, leaving an indelible mark on history as a beacon of hope and resilience.
پہلے تم یاد آتے تھے بغیر سوچے سمجھے
کیا قیامت اب تم یاد آتے ہو سوچنے پر
اسد اللہ بلالی
صورت سیرت نظیرت کو بیان کیا ہے ہم نے
اے بلالی
آپ خوبصورت ہی اتنے ہیں اوصاف ہی بیان کریں گے
تیرا ذکر ہم نے اوروں کے سامنے گناہ سمجھا
اور تجھے تنہاٸی میں یاد کیا عبادت کی طرح
اسد اللہ بلالی
تیری آنکھیں بڑی نشیلی ہیں
ان میں کھونے کو دل کرتا ہے
زلفیں بھی ہیں مانند رات کے
سنوارنے کو دل کرتا ہے
چوٹ کھاٸی ہے نہ حسینوں سے
کیا پھر کھانے کو دل کرتا ہے
اسد اللہ بلالی
اب سادگی والوں سے بھی ڈر لگتا ہے ہمیں
اے بلالی
ہمیں دھوکہ دینے والے بھی بڑے سادہ تھے
تمنا شوخٸ دیدار رہی ہر گھڑی
اسی انتظار میں گزر گٸی زندگی
کیا ہم نے تمہیں دکھ و درو دیے
ہم نے محبت کی جس طرح بندگی
ہر ایک کو اور نظریں گاڑکر دیکھنا
نکال دی ہم نے جسم سے ہر گندگی
تباہ ہو گیا میں تیرے پیچھے
برباد کر دی میں نے اپنی زندگی
اسد اللہ بلالی
دو جسم خواہشوں میں مصروف ہو گۓ
محبت دور کھڑی دیکھتی رہ گٸی
اسد اللہ بلالی
اب جاگنا پڑتا ہے ہمیں
کہ نیند انا پرست ہو گٸی ہے
اسد اللہ بلالی
میں ہوں تنہاٸی ہے اور اداسی ہے
اے بلالی
اک تیرے سوا یہ ساری محفل پیاسی ہے
تم نے دیکھا نہیں آ کر میرا حال زار
کیا جوانی میں بھی بڑھاپے کی آلام آتے ہیں
اسد اللہ بلالی
ہم بھی چراغ کے نیچے پڑی ہوٸی چیز کے مانند تھے
اے بلالی
چراغ کے قریب تھے مگر روشنی نہ پاسکے
میرے سینے میں بھی ایک چھوٹا سا دل ہی
میرے محبوب کی بات پوچھ اے بلالی
ان کے نچلے ہونٹ پر ایک خوبصرت سا تل ہے
تنہاٸی اور یاد حبیب پسند ہے ہمیں
محفلوں میں ہماری پسندوں کو نیلام کیا جاتا ہے
اسداللہ بلالی
ان کی یادیں ہم نے چھپا کے رکھی ہیں
اپنے سینے سے لگا کے رکھی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی خوبصورت سی صورت اور مدھم سی تبسم
ہم نے اپنے دل میں بسا کے رکھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا ہم کو دیکھ کر سر کو جھکا لینا
ان کی یہ ادا بھی ہم نے چھپا کے رکھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
تو اتنا حیراں کیوں ہو رہا ہے ۔۔۔اے بلالی
ہم نے تو ان کے نام کی ہر تختی چھپا کے رکھی ہے
بیمار عشق کا جانچا ہے میں نے علاج
اے بلالی
ہزاروں نسخوں سے دیدار حبیب بہتر ہے
ہر ادا میں وہ پیارے لگتے ہیں
بولیں تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے لوگوں ان کے مسکرانے کے بھی کیا کہنے
دندان ان کے خوبصورت موتی لگتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے ہاتھ بھی بہت نرم و نازک ہیں
جیسے سفید روٸی کے گالے لگتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنگت نہ ہی پوچھو ان کی اے بلالی
سارے رنگ ان کے آگے پھیکے لگتے ہیں