انجم قدوائی ایک بادشاہ تھا۔اس کی سات لڑکیاں تھیں۔وہ ان ساتوں سے بے حد محبت کرتا تھا اور ان کے ہر آرام کا خیال رکھتا تھا۔ایک بار جب دسترخوان سجا ہوا تھا وہ سب لوگ ساتھ کھانے پر بیٹھے تھے بادشاہ نے اپنی بیٹیوں سے ایک سوال پوچھ لیا۔کہ تم لوگ مجھے کتنا چاہتی ہو۔بڑی شہزادی نے کہا”بابا!میں آپ کو گلاب جامن کی طرح چاہتی ہوں“۔
بادشاہ نے خوش ہو کر اس کو چار گاؤں دے دیئے۔دوسری نے کہا ”میں آپ کو برفی کی طرح چاہتی ہوں“۔بادشاہ نے اس کو کافی بڑا علاقہ بخش دیا۔ تیسری لڑکی نے کہا ”میں آپ کو امرتی کی طرح چاہتی ہوں“۔اس کو بھی بادشاہ نے بہت زمین جائیداد دے دی۔اسی طرح وہ سب سے پوچھتا گیا اور سب کو مال و دولت ملتی رہی۔ساتویں لڑکی سے جب بادشاہ نے پوچھا بیٹی تم مجھے کتنا چاہتی ہو تو اس نے بہت پیار سے کہا۔
”بابا میں آپ کو نمک کے برابر چاہتی ہوں“۔یہ سن کر بادشاہ کو جلال آ گیا۔کہنے لگے ”سب مجھے اتنا چاہتے ہیں تم نمک کے برابر؟“ وہ بہت ناراض ہوئے اور چھوٹی بیٹی کو محل سے نکال دیا اور کہا اب کبھی یہاں قدم نہ رکھنا۔ وہ جنگل کی طرف چلی گئی اور پتوں اور لکڑیوں کو ملا کر ایک جھونپڑی بنا کر وہاں رہنے لگی۔بھوک لگتی تو پھل کھا لیتی سوکھے پتوں کا بستر بنا کر سو جاتی۔
ایک دن جب وہ سو کر اٹھی تو دیکھا کہ رنگ برنگی چڑیوں کے پر ہر طرف بکھرے پڑے ہیں اس نے ان پروں کو جمع کیا اور ایک چھوٹی سی پنکھیا بنا لی۔(چھوٹا پنکھا جو ہاتھ سے جھل سکتے ہیں) اور گرمی میں اسی پنکھیا سے ہوا کر لیتی تھی پھر دوسرے دن اس کو اور پر مل گئے اس نے بہت سارے پر اکٹھا کیے اور کئی پنکھیا بنا لیں اور جنگل کے کناری سڑک کے پاس جا کر بیٹھ گئی اپنا چہرہ چادر سے ڈھانپ لیا۔ لوگ آتے گئے اور پنکھیاں خریدتے گئے اتنی خوبصورت پنکھیا انھوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔اب تو بھیڑ سی لگی رہتی۔
ایک بار شہزادے کا ادھر سے گزر ہوا اس نے اتنے خوبصورت پنکھے کبھی نہیں دیکھے تھے سارے خرید لیے پھر شہزادی سے پوچھا تم کون ہو۔اس نے کوئی جواب نہیں دیا اس کے خوبصورت ہاتھ بتا رہے تھے کہ اس نے کبھی کام نہیں کیا تھا پنکھیا بنانے میں اس کی انگلیاں زخمی تھیں۔ شہزادہ اس کے پیچھے جنگل آ گیا اور جب اس کو پتہ چلا کی وہ شہزادی ہے اور سزا کاٹ رہی ہے تو بہت غمزدہ ہوا۔وہ اپنی سلطنت پر واپس گیا اور والدین سے سارا ماجرا کہہ سنایا۔
ان لوگوں کو بھی دکھ ہوا اور وہ اپنے بیٹے کی بارات جنگل لے کر آ گئے۔دونوں کی شادی ہو گئی مگر شہزادی اپنے والد کو بہت یاد کرتی تھی وہ خوش نہیں رہتی تھی۔ایک دن اس نے شہزادے سے کہا کہ وہ اپنے والدین کی دعوت کرنا چاہتی ہے اور ان سے ملنا چاہتی ہے۔ شہزادے نے زبردست دعوت کا انتظام کیا اور بادشاہ کو دعوت دی۔
شہزادی نے کہا سارا انتظام آپ دیکھئے مگر اپنے والدین اور بہنوں کے لئے کھانا میں خود تیار کروں گی۔سارے مہمان آ گئے کئی دسترخوان ایک ساتھ لگے اور بادشاہ اور شہزادیوں کے لئے اندر انتظام کیا گیا۔ وہ جب کھانا کھانے بیٹھے تو ان کی بیٹی سامنے آ کر بیٹھ گئی۔اس نے نقاب پہن رکھا تھا۔ جب بادشاہ نے پہلا نوالہ لیا تو کھانے میں نمک نہیں تھا۔دوسری ڈش نکالی۔وہ بھی بغیر نمک کے تھی تب ان کو بہت غصہ آیا کہ مجھے بلا کر یو بغیر نمک کا کھانا کھلایا گیا۔تب چھوٹی شہزادی نے اپنی نقاب ہٹائی اور کہا۔
”بابا۔۔۔میں آپ کو نمک کے برابر چاہتی ہوں۔یہی کہا تھا میں نے۔نمک کے بغیر کسی چیز میں لذت نہیں ہوتی۔“ بادشاہ چونک اٹھا۔پھر اس نے آگے بڑھ کر بیٹی کو گلے لگا لیا اور اس کی آنکھیں بھر آئیں۔بیٹی سے معافی مانگی تو شہزادی نے کہا۔”کوئی بات نہیں بابا۔۔۔اللہ تو سب کا ہے۔آپ پریشان نہ ہو میں اب بہت خوش رہتی ہوں۔“بہنوں نے بھی معافی مانگی اور گلے لگایا۔اور شہزادی نے سب کو کھلے دل سے معاف کر دیا۔مگر ان سب کو احساس دلا دیا کہ وہ غلطی پر تھے۔
[…] جد گاؤں کے بچوں کے لئے ایک اسکول قائم کرنا تھاون ادیب میں محکمہ تعلیم میں اوسط درجے کا ایک سرکاری افسر ہوں اور شہر سے خاصی دور اس گاؤں میں ایک خاص مقصد کے تحت آیا تھا۔مجھے اس،مگر اس سلسلے میں پہلے ایک سروے رپورٹ تیار کرنی میری ذمے داری تھی۔مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ کام اتنا آسان نہ ہو گا۔وجہ یہ تھی کہ گاؤں کا سردار وہاں اسکول قائم کرنے کے خلاف تھا،کیونکہ تعلیم عام ہونے کے بعد اس کی سرداری خطرے میں پڑ جاتی،مگر چونکہ ایک معلم نے اس کام کے لئے کوشش کی تھی اور ایک بڑی رقم بھی مہیا کی تھی تو اسے ہر حال میں تکمیل تک پہچانا میری ذمے داری تھی۔ میں نے تیزی سے کام شروع کیا۔چند روز بعد مجھے اس وقت چند مسلح افراد نے گھیر لیا،جب میں مختلف زاویوں سے علاقے کی تصاویر بنا رہا تھا۔ اغواکاروں نے مجھ سے میرا مقصد پوچھا تو میں نے سب کچھ بتا دیا،مگر یہ نہ بتایا کہ کس کی خواہش پر یہ کام ہو رہا ہے۔ پستول کی نالی میری کن پٹی سے لگی ہوئی تھی۔اغواکاروں کا رویہ انتہائی سخت تھا،مگر وہ جو چاہتے تھے،میں نہیں کر سکتا تھا۔ آخر اغواکار نے ٹریگر پر اُنگلی رکھی اور پوچھا:”آخری بار پوچھ رہا ہوں،اس منصوبے کے پیچھے کون ہے،بتاؤ،ورنہ گولی مار دوں گا۔“ ابھی میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ اسی وقت کمرے کا دروازہ دھڑام سے کھلا اور ایک رعب دار چہرے والا شخص اندر داخل ہوا،جسے دیکھ کر سارے اغواکار مستعد ہو گئے۔وہ چند لمحے تک مجھے غور سے دیکھتا رہا اور پھر سوالیہ نظروں سے ایک طرف کھڑے اغواکار کی طرف دیکھا تو وہ ادب سے بولا:”خان بھائی!اس نے کچھ نہیں بتایا اور موت سے بھی نہیں ڈرا۔ “ ”اور پیسہ؟“ ”پیسے کی کوئی بات نہیں کی ہے۔“ ”ٹھیک ہے اسے بیس لاکھ دے دو۔“ اگر پھر بھی نہ مانے تو اسے گولی مار کر اس کی لاش کو جنگل میں پھینک دو۔“خان نے حکم صادر کیا اور اسی انداز سے لوٹ گیا۔ اغواکاروں نے میرے سامنے بریف کیس رکھا اور اسے کھول کر بڑے نوٹوں کی گڈیاں دکھائیں،سوچنے کے لئے ایک گھنٹے کی مہلت دے کر مجھے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔ میرے سامنے نوٹوں سے بھرا ہوا بریف کیس تھا،زندگی داؤ پر لگی ہوئی تھی۔میں نے سوچا کہ میں کوئی طاقتور انسان نہیں ہوں اور سب سے اہم بات یہ کہ اغواکار جو راز جاننا چاہتے تھے،اسے بتا دینے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔یہ نوٹ میری قسمت بدل سکتے تھے اور شاید یہ میری بہادری کا خراجِ تحسین ہوتا۔ایک گھنٹے بعد اغواکار واپس آئے۔میں نے قبولیت ظاہر کرکے خان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ اغواکاروں نے مجھے کھول دیا۔خان دوڑا چلا آیا۔اس نے سب سے پہلے یہی سوال کیا:”بتاؤ،ہمارا دشمن کون ہے؟“ میں اس عجیب و غریب سوال کا اتنا ہی عجیب جواب کا سوچ کر مسکرایا اور بولا:”خان!وہ آپ لوگوں میں سے ہے۔آپ ہی کا خون ہے۔“ خان کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔تب میں نے کہا:”خان جی!آپ کے گاؤں میں اسکول کھلے گا۔ شجاعت خان پبلک اسکول!“ خان بُری طرح چونکا اور زیرِ لب بُڑبُڑایا:”شجاعت خان․․․․!“ میں نے انکشاف کرنے والے انداز میں کہا:”خان جی!اس سارے منصوبے کے پیچھے آپ کے والد سر شجاعت خان کا ہاتھ ہے۔ وہی شجاعت خان،جنھیں آپ کے دادا نے تعلیم کے شوق پر اتنا ستایا کہ وہ یہ گاؤں چھوڑ کر شہر چلے گئے۔بعد میں انھوں نے معلمی کا پیشہ اختیار کیا۔ہزاروں بچوں کو تعلیم سے روشناس کرایا اور پھر جو کما کر جمع کیا تھا،اسے حکومت کو پیش کرکے اپنے گاؤں کے لوگوں کے لئے اسکول کھولنے کی درخواست کی،جو منظور بھی ہو گئی،انہی کی خواہش پر یہ سارا کام ہو رہا ہے۔ “ خان کا چہرہ لٹک گیا۔اس نے کرسی کا سہارا لیا پھر کرسی پر گر گیا۔اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی،مگر الفاظ نے اس کا ساتھ نہ دیا۔آخر اس نے لب کھولے اور پھنسی پھنسی آواز میں کہا:”میرے بابا․․․․․․!“ ”وہ اس دنیا میں نہیں رہے!“میں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ اتنا سنتے ہی خان کی آنکھیں چھلک پڑیں۔اس نے بہت کوشش کی،مگر اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔کئی لمحے گزر گئے،تب میں نے کہا:”بڑے خان یعنی آپ کے دادا تعلیم کے خلاف تھے اور آپ کے والد تعلیم سے محبت کرنے والے انسان،وہ صرف بڑے خان پر دباؤ ڈالنے کے لئے گھر سے نکلے تھے،مگر پھر حالات ایسے ہو گئے کہ وہ واپس نہ آ سکے۔پھر پتا چلا کہ وہ ٹرین کے حادثے میں مارے گئے،جب کہ حقیقت یہ تھی کہ ریلوے اسٹیشن سے جس شخص کی لاش ملی تھی،وہ چور تھا،جو آپ کے والد کا سامان چُرا کر بھاگا تھا اور ٹرین کی زد میں آکر مارا گیا۔ اسے آپ لوگوں نے شجاعت خان سمجھ لیا اور انھوں نے بھی سوچا کہ اب کچھ بن کر ہی واپس گھر جانا چاہیے،مگر وہ واپس نہ آ سکے۔“ ”کاش․․․․․کاش!پتا ہوتا کہ وہ زندہ ہیں۔“خان تاسف سے سر پٹخنے لگا۔میں چپ چاپ اسے دیکھتا رہا پھر بولا:”اب آپ کے دادا بھی دنیا میں نہیں رہے،نہ والد،آپ فیصلے کے مجاز ہیں۔میں ایک معمولی سرکاری اہلکار ہوں۔ میرا کام ختم ہو چکا۔آگے حکومت جانے،آپ جانیں!مجھے جانے دیں۔“ خان گہری نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔پھر نوٹوں سے بھرا بریف کیس میری طرف بڑھا کر بولا:”یہ آپ کا ہوا،آپ جا سکتے ہیں۔“ میں نے بریف کیس کو بند کیا اور اسے خان کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا:”خان!سر شجاعت خان جیسے عظیم لوگ میرے استاد رہے ہیں۔پیسے کی ہماری نظر میں کوئی وقعت نہیں رہی،یہ پیسہ آپ اپنے گاؤں کے لوگوں پر خرچ کریں اور میری درخواست ہے کہ اپنے والد صاحب کی خواہش پوری ہونے دیں۔ بے شک تعلیم آپ جیسے حاکم لوگوں کے لئے نقصان دہ ہے،مگر زمانہ بدل رہا ہے۔بچوں کو پڑھنے دیں۔ آپ ان کو ڈرا کر ان سے اپنا احترام کرا رہے ہیں،مگر وہ دل سے آپ کا احترام کریں گے،کیونکہ تعلیم کوئی بُری چیز نہیں اور نہ آپ کے والد کا فیصلہ غلط تھا۔“ جب میں گاؤں سے رخصت ہو رہا تھا تو خان مجھے الوداع کہنے آیا۔اب وہ ایک بدلا ہوا انسان لگ رہا تھا۔ اس نے مجھے گلے لگایا اور بھرائے ہوئے لہجے میں بولا:”الوداع وسیم صاحب!“ میں نے خان کا ہاتھ تھاما اور بولا:”خان!اگر اسکول کا افتتاح آپ اپنے ہاتھوں سے کریں گے تو آپ کے والد کی روح کو سکون ملے گا۔“ ”میں ایسا ہی کروں گا۔“خان نے مضبوط لہجے میں کہا۔ اور پھر جب تک میری جیپ خان کے نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی۔وہ دیکھتا رہا اور الوداعی انداز میں ہاتھ ہلاتا رہا اور مجھے یقین تھا ہم جلد پھر ملیں گے،جب کچھ عرصے بعد اس گاؤں کے پہلے اسکول کا سنگِ بنیاد رکھا جائے گا․․․․“ Read more… […]